وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ تَوَلَّوا وَّأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلَّا يَجِدُوا مَا يُنفِقُونَ
اور نہ ان لوگوں پر کچھ گناہ ہے جن کا حال یہ تھا کہ (خود سواری کی مقدرت نہیں رکھتے تھے اس لیے) تیرے پاس آئے کہ ان کے لیے سواری بہم پہنچا دے اور جب تو نے کہا میں تمہارے لیے کوئی سواری نہیں پاتا تو (بے بس ہوکر) لوٹ گئے لیکن ان کی آنکھیں اس غم میں اشکبار ہورہی تھیں کہ افسوس ہمیں میسر نہیں کہ اس راہ میں کچھ خرچ کریں۔
1۔ وَلَا عَلَى الَّذِيْنَ اِذَا مَا اَتَوْكَ....: یہ مخلص مسلمانوں کے ایک اور گروہ کا ذکر ہے جن کے پاس اپنی سواریاں نہیں تھیں اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سواریاں لینے کے لیے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میرے پاس تمھیں سواری دینے کے لیے کچھ نہیں ہے، اس پر انھیں اتنا صدمہ ہوا کہ وہ رونے لگے اور ایسے روئے گویا آنکھیں پانی کے چشمے بن گئیں، جن سے آنسوؤں کی نالیاں رواں ہوں کہ ہمارے پاس خرچ کرنے کے لیے کچھ نہیں کہ ہم جہاد میں شریک ہو سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں بھی گناہ سے بری قرار دیا کہ ان لوگوں پر اعتراض کا کوئی راستہ اور کوئی گنجائش نہیں، کیونکہ یہ محسنین ہیں۔ 2۔ اس آیت پر ان لوگوں کو خلوص کے ساتھ غور کرنا چاہیے جو کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا و آخرت کے خزانوں کے مالک اور مختار کل ہیں۔ یہ حضرات آپ کے اس فرمان کا ترجمہ کیا کریں گے : ﴿لَا اَجِدُ مَاۤ اَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ﴾ ’’میں وہ چیز نہیں پاتا جس پر تمھیں سوار کروں۔‘‘ ان بھائیوں کو اللہ کا خوف کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مالک الملک اور مختار کل کہہ کر اللہ کا شریک بنانے سے توبہ کرنی چاہیے، کیونکہ یہ گناہ اللہ کے ہاں کسی صورت قابل معافی نہیں ہے۔