سورة التوبہ - آیت 91

لَّيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ وَلَا عَلَى الْمَرْضَىٰ وَلَا عَلَى الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ مَا يُنفِقُونَ حَرَجٌ إِذَا نَصَحُوا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ ۚ مَا عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِن سَبِيلٍ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

ناتوانوں پر بیماروں پر اور ایسے لوگوں پر جنہیں خرچ کے لیے کچھ میسر نہیں کچھ گناہ نہیں ہے (اگر وہ دفاع میں شریک نہ ہوں) بشرطیکہ اللہ اور اس کے رسول کی خیر خواہی میں کوشاں رہیں (کیونکہ ایسے لوگ نیک عملی کے دائرے سے الگ نہیں ہوئے اور) نیک عملوں پر الزام کی کوئی وجہ نہیں، اللہ بڑا ہی بخشنے والا رحمت والا ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

لَيْسَ عَلَى الضُّعَفَآءِ....: اس آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو واقعی معذور تھے اور ان کا عذر واضح تھا۔ ان میں سب سے پہلے ’’الضُّعَفَآءِ ‘‘ ہیں، ان سے مراد لنگڑے، لولے، اندھے، بوڑھے، عورتیں اور بچے ہیں۔ دوسرے ’’الْمَرْضٰى‘‘ (مریض کی جمع) جو بیماری کی وجہ سے نہیں جا سکتے، دوسری جگہ فرمایا : ﴿لَيْسَ عَلَى الْاَعْمٰى حَرَجٌ وَّ لَا عَلَى الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلَى الْمَرِيْضِ حَرَجٌ ﴾ [الفتح : ۱۷ ] ’’نہیں ہے اندھے پر کوئی تنگی اور نہ لنگڑے پر کوئی تنگی اور نہ مریض پر کوئی تنگی۔‘‘ اور تیسرے وہ تندرست طاقت رکھنے والے جو مالی استطاعت نہیں رکھتے کہ جہاد کے سفر اور اس کے سازو سامان مثلاً سواری اور ہتھیار وغیرہ کی تیاری کر سکیں۔ چنانچہ فرمایا : ﴿لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا﴾ [ البقرۃ : ۲۸۶ ]’’اللہ کسی کو تکلیف نہیں دیتا مگر اس کی گنجائش کے مطابق۔‘‘ اِذَا نَصَحُوْا لِلّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ: یعنی وہ کام نہ کرتے ہوں جس سے اللہ کے دین، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا مومنوں کو کوئی نقصان اور ان کے دشمنوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اَلدِّيْنُ النَّصِيْحَةُ)) ’’دین خیر خواہی (خلوص) ہی کا نام ہے۔‘‘ ہم نے کہا : ’’کس کے لیے؟‘‘ فرمایا : ’’اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، مسلمانوں کے حکام کے لیے اور ان کے تمام لوگوں کے لیے۔‘‘ [ مسلم، الإیمان، باب بیان أن الدین النصیحۃ : ۵۵، عن تمیم رضی اللّٰہ عنہ ] عام لوگوں کی خیر خواہی میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ جب مجاہدین جہاد پر گئے ہوئے ہوں تو یہ لوگ شہر میں رہیں، ان کے گھروں کی، کاروبار کی اور بال بچوں کی خبر گیری رکھیں، ان کی عزت و آبرو کی ہر طرح سے حفاظت کریں، مجاہدین کی ضروریات بھیجتے رہیں، جھوٹی خبریں یا افواہیں نہ پھیلائیں، کسی قسم کا فساد برپا نہ کریں اور مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے والوں کا منہ بند کریں۔ مَا عَلَى الْمُحْسِنِيْنَ مِنْ سَبِيْلٍ: یعنی یہ لوگ معذور ہیں، اگر جہاد میں شرکت نہ کریں تو ان پر کچھ گناہ نہیں۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے واپس آئے، مدینہ کے قریب پہنچے تو فرمایا : ’’بے شک مدینہ میں کئی لوگ ہیں، تم کسی راستے پر نہیں چلے اور نہ تم نے کوئی وادی طے کی ہے، مگر وہ تمھارے ساتھ رہے ہیں۔‘‘ لوگوں نے پوچھا : ’’یارسول اللہ! اور وہ مدینہ ہی میں تھے؟‘‘ فرمایا : ’’(ہاں) وہ مدینہ ہی میں تھے، انھیں عذر نے روک رکھا تھا۔‘‘ [ بخاری، المغازی، باب : ۴۴۲۳ ]