وَجَاءَ الْمُعَذِّرُونَ مِنَ الْأَعْرَابِ لِيُؤْذَنَ لَهُمْ وَقَعَدَ الَّذِينَ كَذَبُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ سَيُصِيبُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
اور (اے پیغمبر) اعرابیوں میں سے (یعنی عرب کے صحرائی بدوں میں سے) عذر کرنے والے تمہارے پاس آئے کہ انہیں بھی (رہ جانے کی) اجازت دی جائے اور (ان میں سے) جن لوگوں نے اظہار اسلام کر کے) اللہ اور اس کے رسول سے جھوٹ بولا تھا وہ گھروں ہی میں بیٹھے رہے، سو معلوم ہوا کہ ان میں سے جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی انہیں عنقریب عذاب دردناک پیش آئے گا۔
وَ جَآءَ الْمُعَذِّرُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ....: اس سے پہلے مدینہ کے منافقین اور اہل ایمان کا ذکر تھا، اب مدینہ کے اردگرد بادیہ نشینوں کا حال ذکر ہوتا ہے، کیونکہ ان میں بھی دونوں قسم کے لوگ موجود تھے، جیسا کہ آگے آیت (۹۸، ۹۹) اور پھر (۱۰۱، ۱۰۲) میں ذکر آ رہا ہے۔ مفسرین نے اس کی تفسیر دو طرح سے کی ہے، کیونکہ عذر کرنے والے سچے بھی ہو سکتے ہیں اور جھوٹے بھی، اس لیے بعض نے تو ’’الْمُعَذِّرُوْنَ‘‘ سے مراد وہ اعراب لیے ہیں جو صحیح مومن تھے مگر کسی حقیقی عذر کی وجہ سے نہیں جا سکے تھے، یہ لوگ تو اپنا عذر بیان کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے اور جنھوں نے اللہ اور اس کے رسول سے جھوٹ بولا تھا اور دل سے مسلمان نہیں ہوئے تھے، وہ گھروں ہی میں بیٹھے رہے، انھوں نے آکر عذر پیش کرنے کی زحمت ہی نہیں کی، چنانچہ ان میں سے کفر کرنے والوں کو عذاب الیم کی وعید سنائی گئی، یعنی دنیا میں قید اور قتل اور آخرت میں جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس تفسیر کو ترجیح دی ہے۔ بعض مفسرین نے ’’الْمُعَذِّرُوْنَ ‘‘ سے مراد جھوٹے بہانے اور باطل عذر پیش کرنے والے لیے ہیں۔ زمخشری رحمہ اللہ نے اس رائے کی تائید کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ ’’الْمُعَذِّرُوْنَ ‘‘ باب تفعیل سے ہو تو ’’عَذَّرَ فِي الْأَمْرِ‘‘ کا معنی ہی یہ ہے کہ اس نے کام میں سستی کی، اس کی کوشش ہی نہیں کی اور ظاہر یہ کیا کہ اس کا عذر تھا، حالانکہ اس کا عذر کوئی نہ تھا اور اگر’’الْمُعَذِّرُوْنَ ‘‘ باب افتعال سے ہو اور اس کا اصل ’’مُعْتَذِرُوْنَ‘‘ ہو پھر بھی جھوٹے بہانے ہی مراد ہیں، جیسا کہ آگے صاف آ رہا ہے : ﴿يَعْتَذِرُوْنَ اِلَيْكُمْ اِذَا رَجَعْتُمْ اِلَيْهِمْ﴾ [ التوبۃ : ۹۴ ] ’’تمھارے سامنے عذر پیش کریں گے، جب تم ان کی طرف واپس آؤ گے۔‘‘ پہلی تفسیر کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ ہر عذر والا جھوٹا نہیں تھا بلکہ اللہ تعالیٰ نے خود اگلی آیت میں کئی عذر والوں کو گناہ سے بری قرار دیا ہے اور اس آیت میں بھی دونوں قسموں میں سے ’’الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ‘‘ ہی کو عذاب کی وعید سنائی ہے، اگرچہ ترجمے کا رجحان دوسری تفسیر کی طرف ہے، مگر امام ابن کثیر رحمہ اللہ کی بات میں وزن معلوم ہوتا ہے۔