سورة التوبہ - آیت 86

وَإِذَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ أَنْ آمِنُوا بِاللَّهِ وَجَاهِدُوا مَعَ رَسُولِهِ اسْتَأْذَنَكَ أُولُو الطَّوْلِ مِنْهُمْ وَقَالُوا ذَرْنَا نَكُن مَّعَ الْقَاعِدِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (اے پیغمبر) جب کوئی (قرآن کی) سورت اس بارے میں اترتی ہے کہ اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول کے ساتھ ہو کر جہاد کرو تو لوگ ان میں مقدور والے ہیں وہی تجھ سے رخصت مانگنے لگتے ہیں کہ ہمیں چھوڑ دیجیے، گھر میں بیٹھ رہنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اِذَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ....: ’’سُوْرَةٌ‘‘ آیات کا ایک حصہ، ٹکڑا۔ ’’الطَّوْلِ‘‘کا معنی’’اَلْفَضْلُ وَالْقُدْرَةُ وَالْغِنَي وَالسَّعَةُ ‘‘ ہے۔ (قاموس) یعنی وسعت و طاقت اور مال و دولت۔ ’’الْخَوَالِفِ ‘‘ یہ ’’خَالِفَةٌ‘‘ کی جمع ہے ’’پیچھے رہنے والی عورتیں۔‘‘ ’’فَاعِلَةٌ‘‘ کی جمع ’’فَوَاعِلُ‘‘ آتی ہے، جیسے ’’قَاطِعَةٌ ‘‘ کی جمع ’’قَوَاطِعُ‘‘ اور ’’ضَارِبَةٌ ‘‘ کی جمع ’’ضَوَارِبُ‘‘ اور ’’قَافِلَةٌ‘‘ کی جمع ’’قَوَافِلُ‘‘ یعنی جہاد کے حکم والی آیات کا کوئی حصہ اترنے پر وہ لوگ عذر کریں جن کے پاس کچھ نہیں اور جو ضروریات جہاد حاصل نہ ہو سکنے کی وجہ سے ساتھ نہیں جا سکتے تو بات سمجھ میں آتی ہے، مگر ان منافقین میں سے وسعت و طاقت والے بھی جہاد میں نہ جانے اور پیچھے رہنے کی اجازت مانگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے اسباب بیان فرمائے کہ بزدلی کی وجہ سے ان میں ایسی کمینگی پیدا ہو چکی ہے کہ انھیں عورتوں کے ساتھ پیچھے رہ جانے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی، بلکہ وہ اس پر خوش ہیں اور ان کے اعمال بد کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے جس کی وجہ سے وہ جہاد کی برکات کو اور بزدلی اور ترک جہاد کی نحوست اور نقصانات کو نہیں سمجھتے۔ نہ ان پر اللہ اور اس کے رسول کی بات کا اثر ہوتا ہے اور نہ کسی سمجھانے والے کی نصیحت کا۔