وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَىٰ قَبْرِهِ ۖ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ
اور (اے پیغبر) ان میں سے کوئی مرجائے تو تم کبھی اس کے جنازہ پر (اب) نماز نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے رہنا، کیونکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور اس حالت میں مرے کہ (دائرہ) ہدایت سے باہر تھے۔
وَ لَا تُصَلِّ عَلٰۤى اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا....: ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب عبد اللہ بن ابی فوت ہوا تو اس کا بیٹا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا کہ مجھے اپنی قمیص دیجیے کہ میں اسے اس میں کفن دوں اور آپ اس پر جنازہ پڑھیں اور اس کے لیے بخشش کی دعا فرمائیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی قمیص دی اور فرمایا : ’’مجھے اطلاع دینا، تاکہ میں اس کا جنازہ پڑھوں۔‘‘ اس نے اطلاع دی اور جب آپ نے اس پر جنازے کا ارادہ کیا، تو عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو کھینچ لیا اور کہا، کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو منافقین کا جنازہ پڑھنے سے منع نہیں فرمایا؟ آپ نے فرمایا : ’’مجھے دو اختیار ہیں : ﴿اِسْتَغْفِرْ لَهُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ ﴾ [ التوبۃ : ۸۰ ] (ان کے لیے بخشش مانگ یا ان کے لیے بخشش نہ مانگ)۔‘‘ سو آپ نے اس کا جنازہ پڑھا تو یہ آیت اتری : ﴿وَ لَا تُصَلِّ عَلٰۤى اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا ﴾ [ بخاری، الجنائز، باب ما یکرہ من الصلوۃ علی المنافقین....: ۱۳۶۶۔ مسلم : ۲۴۰۰ ] اب جو شخص کلمہ پڑھ کر صریح شرک کرتا ہے اور غیر اللہ سے وہ مدد مانگتا ہے جو اللہ کے سوا کسی کے اختیار ہی میں نہیں، یا کلمہ کے بعد مسلمان ہونے کی پہلی شناخت نماز ہی اس میں نہیں پائی جاتی، یا وہ صاف اللہ تعالیٰ کی حدود کو وحشیانہ سزائیں کہتا ہے، یا اللہ تعالیٰ کے احکام کا مذاق اڑاتا ہے، یا اس زمانے میں انھیں ناقابل عمل کہتا ہے، اس کا جنازہ پڑھنا کیسے درست ہو سکتا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میت کو جنازے کے بعد دفن کرکے قبر پر کھڑے ہو کر دعا مانگتے تھے، مختلف دوسرے اوقات میں وہاں جا کر ان کے لیے دعا کرتے تھے، منافقین کے متعلق اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے بھی منع فرما دیا۔ کیونکہ اس میں منافق، کافر اور مشرک کی تکریم اور عزت افزائی ہے جو اللہ تعالیٰ کو کسی صورت منظور نہیں۔