اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِن تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ
(اے پیغمبر) تم ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو یا نہ کرو (اب ان کی بخشش ہونے والی نہیں) تم اگر ستر مرتبہ بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو (یعنی سینکڑوں مرتبہ ہی دعا کیوں نہ کرو) جب بھی اللہ انہیں کبھی نہیں بخشے گا، یہ اس بات کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور اللہ (کا مقررہ قانون یہ ہے کہ) وہ دائرہ ہدایت سے نکل جانے والوں پر (کامیابی و سعادت کی) راہ کبھی نہیں کھولتا۔
1۔ اِسْتَغْفِرْ لَهُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ....: یعنی آپ کا ان کے لیے استغفار کرنا یا نہ کرنا برابر ہے، یہاں یہ بات امر کے صیغے کے ساتھ آئی ہے، مگر مراد خبر دینا ہی ہے، جیسا کہ دوسری جگہ صاف خبر کے الفاظ میں فرمایا : ﴿سَوَآءٌ عَلَيْهِمْ اَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ اَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ لَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَهُمْ ﴾ [ المنافقون : ۶ ] ’’ان پر برابر ہے کہ تو ان کے لیے بخشش کی دعا کرے یا ان کے لیے بخشش کی دعا نہ کرے، اللہ انھیں ہر گز معاف نہیں کرے گا۔‘‘اس آیت کی تفسیر کا کچھ حصہ آیت (۸۴) کی تفسیر میں آ رہا ہے۔ 2۔ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ: یعنی آپ ان کے حق میں کتنا ہی استغفار کریں اللہ تعالیٰ انھیں ہر گز نہیں بخشے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کی وجہ سے وہ بخشے جانے کے لائق ہی نہیں ہیں۔ اس آیت کی تشریح میں شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ یہاں سے فرق نکلتا ہے بے اعتقاد اور گناہ گار کا۔ گناہ ایسا کون سا ہے جو کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے بخشانے سے نہ بخشا جائے اور بے اعتقاد کو پیغمبر کا ستر دفعہ استغفار فائدہ نہ کرے۔ اب بے اعتقاد لوگ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت پر کس دلیل سے بھروسا کر سکتے ہیں؟ آدمی سے برائی ہو جائے یا عمل میں کوتاہی ہو اور وہ شرمندہ ہے تو وہ گناہ گار ہے اور جو بد کام کو عیب نہ جانے اور اللہ تعالیٰ کے عائد کر دہ فرض کے کرنے اور نہ کرنے کو برابر سمجھے اور کرنے والوں پر طعن کرے، وہ بے اعتقاد ہے۔ ایسے شخص کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا استغفار بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ (موضح)