يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ مَا قَالُوا وَلَقَدْ قَالُوا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَكَفَرُوا بَعْدَ إِسْلَامِهِمْ وَهَمُّوا بِمَا لَمْ يَنَالُوا ۚ وَمَا نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْنَاهُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ مِن فَضْلِهِ ۚ فَإِن يَتُوبُوا يَكُ خَيْرًا لَّهُمْ ۖ وَإِن يَتَوَلَّوْا يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ عَذَابًا أَلِيمًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ وَمَا لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ
یہ (منافق) اللہ کی قسم کھاتے ہیں کہ ہم نے ایسا نہیں کہا اور واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے ضرور کفر کی بات کہی، وہ اسلام قبول کر کے پھر کفر کی چال چلے اور اس بات کا منصوبہ باندھا جو نہ پاسکے، انہوں نے انتقام نہیں لیا مگر اس بات کا کہ اللہ اور اس کے رسول نے انہیں اپنے فضل سے (مال غنیمت دے دے کر) توانگر کردیا ہے۔ بہرحال اگر یہ لوگ اب بھی باز آجائیں تو ان کے لیے بہتر ہے اور اگر گردن موڑیں تو پھر یاد رکھیں اللہ ضرور انہیں دنیا اور آخرت میں عذاب دردناک دے گا اور روئے زمین پر ان کا نہ کوئی کارساز ہونے والا ہے نہ مددگار۔
1۔ يَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ مَا قَالُوْا: منافقین اپنی نجی مجلسوں میں کفریہ باتیں کرتے، مگر پردہ چاک اور راز فاش ہونے پر جھوٹی قسمیں کھا کر مکر جاتے، جب گواہیوں سے بات ثابت ہو جاتی تو بہانہ بنا لیتے کہ ہم تو ہنسی مذاق اور دل لگی میں ایسی باتیں کر رہے تھے، آپ نے انھیں سنجیدہ لے لیا ہے اور اپنی قسموں کو بطور ڈھال استعمال کرتے۔ دیکھیے سورۂ نساء ( ۶۲) اور توبہ (۴۲، ۵۶ ، ۱۰۷)۔ 2۔ وَ لَقَدْ قَالُوْا كَلِمَةَ الْكُفْرِ....: وہ کفر کی بات کیا تھی جو ان منافقوں نے کہی تھی، قرآن مجید نے یہاں اس کی صراحت نہیں فرمائی، اس لیے کہ یہ کوئی ایک آدھ واقعہ نہیں تھا نہ ہی ایک آدھ شخص کی بات تھی، اکثر منافقین بلکہ سبھی کا یہی وتیرہ تھا اور ان لوگوں نے مختلف موقعوں پر کفر کی باتیں کہی تھیں۔ یہاں مثال کے طور پر صرف ایک واقعہ نقل کیا جاتا ہے جو سورۂ منافقون میں مختصر اور بخاری و مسلم میں کچھ تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک لڑائی میں تھا تو میں نے عبد اللہ بن ابی سے سنا ، وہ کہہ رہا تھا : ’’ان لوگوں پر خرچ نہ کرو جو اللہ کے رسول کے پاس ہیں، یہاں تک کہ وہ لوگ منتشر ہو جائیں جو آپ کے اردگرد ہیں اور یہ کہ ہم اگر مدینہ واپس پہنچ گئے تو جو زیادہ عزت والا ہے وہ ذلیل تر کو نکال دے گا۔‘‘ میں نے یہ بات اپنے چچا یا عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کی، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا، میں نے آپ کو یہ بات بیان کر دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کی طرف پیغام بھیجا، وہ سب قسمیں کھا گئے کہ انھوں نے یہ بات نہیں کہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جھوٹا قرار دے دیا، مجھے ایسی فکر لاحق ہوئی جو مجھے کبھی لاحق نہ ہوئی تھی تو میں گھر میں بیٹھ گیا۔ میرے چچا نے کہا، تم نے یہ کیا چاہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمھیں جھوٹا قرار دیا اور تم پر ناراض بھی ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے سورۂ منافقون نازل فرما دی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف آدمی بھیجا اور یہ سورت پڑھی اور فرمایا : ’’زید! اللہ تعالیٰ نے تمھیں سچا قرار دیا ہے۔‘‘ [ بخاری، التفسیر، باب قولہ : ﴿إذا جاء ک المنافقون....﴾ : ۴۹۰۰، ۴۹۰۱۔ مسلم : ۲۷۷۲ ] 3۔ وَ هَمُّوْا بِمَا لَمْ يَنَالُوْا....: یعنی منافقین نے جو ارادہ کیا تھا وہ اپنی مراد کو نہیں پہنچ سکے اور یہ ناکامی اور نامرادی کوئی ایک مرتبہ نہیں ہوئی، بلکہ وہ ہمیشہ اپنے ناپاک منصوبوں اور سازشوں میں ناکام ہوئے، جن کی چند مثالیں یہ ہیں : (1) وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنا چاہتے تھے اور اسلام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے تھے۔ (2) مجاہدین کے مالی ذرائع بند کرنا چاہتے تھے۔ (3) یہودیوں کو مدینہ میں آباد دیکھنا چاہتے تھے۔ (4) عبد اللہ بن ابی کو تاجِ سلطانی پہنانا چاہتے تھے۔ (5) مسلمانوں کے خلاف مسجد ضرار کا مورچہ بنانا چاہتے تھے۔ (6) تبوک میں رومیوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا نام و نشان مٹتا ہوا دیکھنے کی خواہش رکھتے تھے، مگر سب منصوبوں میں ناکام اور نامراد ہوئے۔ آخری حد جس تک وہ پہنچے وہ جنگ تبوک سے واپسی پر آپ کے قتل کا منصوبہ تھا۔ راستے میں عقبہ ایک بلند، دشوار گزاراور تنگ جگہ تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کروا دیا کہ آپ اس راستے سے جائیں گے، اس لیے ادھر سے کوئی نہ جائے۔ چند منافقین نے اس حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس مقام پر آپ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ چنانچہ صحیح مسلم کی اس حدیث سے اس واقعہ پر روشنی پڑتی ہے، ابو طفیل بیان فرماتے ہیں کہ ’’عقبہ‘‘ والے لوگوں میں سے ایک شخص اور حذیفہ رضی اللہ عنہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص راز دار) کے درمیان کچھ تلخ کلامی ہو گئی، تو وہ کہنے لگا : ’’میں تمھیں قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ وہ ’’عقبہ‘‘ والے کتنے آدمی تھے۔‘‘ (حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کچھ گریز کیا) تو لوگوں نے کہا : ’’جب وہ پوچھ رہا ہے تو آپ اسے بتا دیں۔‘‘ انھوں نے فرمایا : ’’ہمیں بتایا جاتا تھا کہ وہ چودہ تھے، اگر تو بھی ان میں شامل تھا تو یہ لوگ پندرہ ہو گئے اور میں اللہ کی قسم کھا کر گواہی دیتا ہوں کہ ان میں سے بارہ تو دنیا کی زندگی میں اور اس دن جب گواہ پیش ہوں گے، دونوں (جہاں) میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن ہیں۔ باقی رہے تین تو انھوں نے معذرت کرتے ہوئے کہا تھا کہ نہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان کرنے والے کو سنا تھا اور نہ ہمیں معلوم ہو سکا کہ ان لوگوں کا ارادہ کیا ہے۔‘‘ [ مسلم، صفات المنافقین : 11؍2779 ] بیہقی کی دلائل النبوۃ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں حذیفہ بن یمان اور عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما نے انھیں دیکھ کر للکارا تو وہ بھاگ گئے (کیونکہ ان کا منصوبہ خفیہ نہ رہ سکنے کی وجہ سے ناکام ہو گیا)۔ صاحب ’’هداية المستنير‘‘ نے دلائل النبوۃ (۷؍۲۶۰) کا حوالہ دے کر اسے صحیح لغیرہ قرار دیا ہے۔ اس روایت سے صحیح مسلم کی حدیث کی وضاحت ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میری امت میں سے بارہ منافق ایسے ہیں جو نہ جنت میں جائیں گے اور نہ اس کی خوشبو پائیں گے، حتیٰ کہ اونٹ سوئی کے ناکے سے گزر جائے، ان میں سے آٹھ کے لیے تو پھوڑا کافی ہو گا جو آگ کا چراغ ہو گا، جو ان کے کندھوں میں نکلے گا، یہاں تک کہ ان کے سینوں سے نمودار ہو گا۔‘‘ [ مسلم، صفات المنافقین، باب صفات المنافقین ....:10؍2779]