يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ ۚ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ
اے پیغمبر ! کافروں اور منافقوں دونوں سے جہاد کر اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آ (کیونکہ کافروں کی عہد شکنیاں اور منافقوں کا عذر فریب اب آخری درجہ تک پہنچ چک ہے) بالآخر ان کا ٹھکانا دوزخ ہے (اور جس کا آخری ٹھکانا دوزخ ہو تو) کیا ہی بری پہنچنے کی جگہ ہے۔
يٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِيْنَ....: مدینہ آنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طویل مدت تک منافقین سے نرمی برتتے رہے اور ان کی سازشوں اور کمینگیوں سے درگزر فرماتے رہے، مگر اس حسن سلوک سے اصلاح کے بجائے ان کی سرکشی بڑھتی ہی گئی، اس لیے جب یہ سورت اتری جو قرآن کی سب سے آخر میں اترنے والی سورتوں میں سے ہے تو حکم ہوا کہ اب نرمی اور درگزر کے بجائے سختی اور بندوبست کا وقت آگیا ہے، اس لیے اب تک آپ جو نرمی اور چشم پوشی کا معاملہ کرتے رہے اسے ختم کیجیے اور ان کے ہر قصور پر سختی سے گرفت کیجیے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ منافقین صریح کفر کا اظہار کریں اور اس پر قائم رہیں تو کفار کی طرح ان سے بھی جہاد بالسیف کیا جائے۔ ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے اسی کو ترجیح دی ہے۔البتہ اگر وہ کفر کے اظہار کے بعد اس سے مکر جائیں تو ان پر سختی کی جائے اور زبان سے طعن و ملامت کی جائے، تلوار سے قتال نہ کیا جائے۔ ہاں حدودِ الٰہی ان پر ضرور نافذ کی جائیں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقین سے قتال بالسیف نہیں کیا بلکہ قتل کی اجازت طلب کرنے پر بھی فرمایا : ’’رہنے دو لوگ کہیں گے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کرتا ہے۔‘‘ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ مختلف اقوال نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ’’ان اقوال میں اختلاف نہیں، اصل بات یہ ہے کہ مختلف حالات میں حسب موقع سزا دی جا سکتی ہے، یعنی منافقین صریح کفر کے اظہار کی جرأت کریں تو پھر ان سے کفار کی طرح ہی معاملہ ہو گا۔‘‘