إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۖ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
صدقہ کا مال (یعنی مال زکوۃ) تو اور کسی کے لیے نہیں ہے۔ صرف فقیروں کے لیے ہے، اور مسکینوں کے لیے ہے، اور ان کے لیے جو اس کی وصولی کے کام پر مقرر کیے جائیں، اور وہ کہ ان کے دلوں میں (کلمہ حق کی) الفت پیدا کرنی ہے۔ اور وہ کہ ان کی گردنیں (غلامی کی زنجیروں میں) جکڑی ہیں (اور انہیں آزاد کروانا ہے) نیز قرض داروں کے لیے (جو قرض کے بوجھ سے دب گئے ہوں، اور ادا کرنے کی طاقت نہ رکھیں) اور اللہ کی راہ میں (یعنی جہاد کے لیے اور ان تمام کاموں کے لیے جو مثل جہاد کے اعلائے کلمہ حق کے لیے ہوں) اور مسافروں کے لیے (جو اپنے گھر نہ پہنچ سکتے ہوں اور مفلسی کی حالت میں پڑگئے ہوں) یہ اللہ کی طرف سے ٹھہرائی ہوئی بات ہے اور اللہ (سب کچھ) جاننے والا (اپنے تمام حکموں میں) حکمت رکھنے والا ہے۔
1۔ اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِيْنِ....: منافقین کا طعن دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے خود صدقات کے حق دار بیان فرما دیے، تاکہ سب لوگ جان لیں کہ صدقات کی تقسیم کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اختیار نہیں، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر طعن بے سود ہے۔ یہاں صدقات سے مراد فرض صدقات، یعنی زکوٰۃ و عشر ہیں، کیونکہ حکومت کی طرف سے وصولی کے لیے عاملین فرض زکوٰۃ ہی کے لیے بھیجے جاتے تھے، یہ الگ بات ہے کہ کوئی ان کے پاس نفل صدقہ بھی جمع کروا دے۔ صدقے کو صدقہ اس لیے کہتے ہیں کہ اللہ کے لیے مال خرچ کرنے والا عملی طور پر اپنے ایمان کے صدق کا مظاہرہ کرتا ہے۔ یہ لفظ عام طور پر نفلی خرچ پر بولا جاتا ہے، مگر کبھی فرض پر بھی بولا جاتا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً﴾ [ التوبۃ : ۱۰۳ ] یہاں فرض صدقات ہی مراد ہیں۔ اس آیت کے آخر میں ’’فَرِيْضَةً مِّنَ اللّٰهِ ‘‘ سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے، کیونکہ نفلی صدقات کو فریضہ نہیں کہا جاتا۔ ’’اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ ‘‘ سے معلوم ہوا کہ ان مقامات کے علاوہ زکوٰۃ و عشر خرچ کرنا جائز نہیں۔ 2۔ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِيْنِ: فقیر اور مسکین دونوں لفظ محتاج کے معنی میں آتے ہیں، بعض اہل علم فقیر کو زیادہ بدحال قرار دیتے ہیں، بعض مسکین کو اور بعض دونوں کو ایک ہی قرار دیتے ہیں۔ دلائل کے لحاظ سے راجح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ فقیر مسکین سے زیادہ بدحال ہوتا ہے، کیونکہ یہ ’’فقر‘‘ سے مشتق ہے، کمر کے مہروں کو ’’فَقَرَاتُ الظَّهْرِ‘‘ کہتے ہیں۔ فقیر بمعنی مفقور ہے، یعنی ضرورت کی اشیاء نہ ہونے کی وجہ سے گویا اس کی کمر ٹوٹی ہوئی ہے۔ مسکین ’’سکن‘‘ سے مشتق ہے کہ ضرورت مندی نے اس کی حرکت کو سکون میں بدل دیا ہے۔ گویا فقیر کی حالت اس شخص کی سی ہے جس کے پاس کچھ نہیں اور مسکین وہ ہے جس کی آمدنی اس کی ضروریات سے کم ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿اَمَّا السَّفِيْنَةُ فَكَانَتْ لِمَسٰكِيْنَ يَعْمَلُوْنَ فِي الْبَحْرِ ﴾ [ الکہف : ۷۹ ] یعنی وہ کشتی چند مساکین کی تھی جو سمندر میں کام کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ کشتی کا مالک جو کام بھی کرتا ہو بالکل خالی ہاتھ نہیں ہوتا۔ ہاں، آمدنی ضرورت سے کم ہونے کی وجہ سے وہ ضرورت مند و محتاج ہوتا ہے۔ زیر تفسیر آیت میں فقراء کو پہلے لانے سے بھی ان کے زیادہ بدحال ہونے کا اشارہ ملتا ہے۔ لیکن یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ یہ فرق اس وقت ضروری ہو گا جب فقیر اور مسکین دونوں لفظ اکٹھے آئیں، جیسے ایمان اور اسلام کا فرق ہے، لیکن الگ الگ آئیں تو دونوں ایک ہی ہیں۔ اسی طرح ان میں سے صرف فقیر یا مسکین کا لفظ آئے تو وہ دونوں قسم کے ضرورت مندوں پر بول لیا جاتا ہے، خواہ ان کے پاس کچھ ہو یا نہ ہو۔ یہ دونوں زکوٰۃ کے مستحق ہیں، خواہ وہ بدحال فقیر ہوں یا سفید پوش ضرورت مند۔ 3۔ وَ الْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا: زکوٰۃ و عشر کی وصولی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آدمی مقرر فرماتے تھے اورباقاعدہ ان کا محاسبہ فرماتے تھے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن اللتبیہ رضی اللہ عنہ کو اس کام پر مقرر فرمایا تھا اور ان کی آمد پر محاسبہ کرتے ہوئے حکومت کے عمال کو ملنے والے تحائف کو ان کے لیے ناجائز قرار دیا تھا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ’’ كِتَابُ الْاَحْكَامِ‘‘ میں باب قائم فرمایا ہے : ’’بَابُ رِزْقِ الْحُكَّامِ وَالْعَامِلِيْنَ عَلَيْهَا۔‘‘ 4۔ وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ: اس سے مراد وہ نومسلم ہیں جن کی دل جوئی کرکے انھیں اسلام پر ثابت قدم رکھنا مقصود ہو، یا وہ کفار جن کی دل جوئی سے ان کے اسلام لانے کی امید ہے، یا وہ بااثر لوگ جن پر خرچ کرنے سے کئی لوگوں کے مسلمان ہونے کی امید ہے، یا وہ کافر سردار جن پر خرچ کرنے سے ان کے علاقے میں مسلمانوں کے ظلم و ستم سے محفوظ رہنے کی امید ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اسلام کے غلبے کے بعد یہ مد ختم ہو گئی، جیسا کہ امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا، مگر موجودہ زمانے کے حالات کو سامنے رکھیں تو آج کل شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے بھی زیادہ اس کی ضرورت ہے، کیونکہ کفار اسی طریقے سے مسلمانوں کو مرتد کر رہے ہیں۔ 5۔ وَ فِي الرِّقَابِ: گردنیں چھڑانے سے مراد غلاموں کو خرید کر آزاد کرنا ہے۔ مکاتب غلاموں کی (جنھوں نے اپنے مالکوں سے اپنی قیمت قسطوں میں ادا کرنے کی شرط پر آزادی کا معاہدہ کیا ہوا ہے) مدد کرنا ہے۔ آج کل عدالتوں کے کفریہ نظام کی وجہ سے بے گناہ لوگ یا وہ گناہ گار جن کی شرعی سزا قید نہیں ہے، مگر کافرانہ قانون کی وجہ سے قید ہیں، یا کفر کی عدالتوں کا عائد کر دہ جرمانہ ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے یا مقدمہ کے اخراجات ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے جیلوں میں سال ہا سال سے سڑ رہے ہیں ان کو چھڑانے پر زکوٰۃ صرف کرنا بھی اس میں شامل ہے۔ (واللہ اعلم) 6۔ وَ الْغٰرِمِيْنَ : وہ مقروض جو قرض ادا نہیں کر سکتے، یا وہ کاروباری لوگ یا زمیندار وغیرہ جو کاروبار یا فصل برباد ہوجانے کی وجہ سے زیر بار ہو گئے، اگر وہ اپنی جائداد میں سے قرض ادا کریں تو فقیر ہو جائیں، یا وہ بااثر لوگ جنھوں نے صلح کروانے کے لیے لوگوں کی دیتیں یا رقوم اپنے ذمے لے لیں، یہ سب غارمین میں آتے ہیں۔ 7۔ وَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ: اس لفظ کے دو استعمال ہیں، ایک تو ہر نیکی ہی اللہ کے لیے اور اللہ کے راستے میں ہے اور فقراء و مساکین وغیرہ پر خرچ بھی فی سبیل اللہ ہے، جن کا ذکر اسی آیت میں پہلے ہو چکا ہے۔ دوسرا ان سب سے الگ فی سبیل اللہ ہے۔ اس سے مراد تمام مفسرین کے اتفاق کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ مجاہد غنی بھی ہو تو اس پر جہادی ضروریات کی خاطر خرچ کیا جا سکتا ہے۔ حدیث میں حج و عمرہ کو بھی اس مد میں شامل کیا گیا ہے۔ آپ تفسیر کی کتابیں دیکھ لیں یا فقہ کی ’’وَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ‘‘ کی تشریح ’’هُمُ الْغُزَاةُ ‘‘ ہی پائیں گے کہ اس سے مراد اللہ کی راہ میں لڑنے والے ہیں، بلکہ اہل علم کا فیصلہ ہے کہ اگر ایک طرف فقراء و مساکین ہوں اور ایک طرف غازیانِ اسلام کو ضرورت ہو تو مجاہدین کی مدد کو ترجیح دی جائے گی، کیونکہ شکست کی صورت میں فقر و مسکنت کے ساتھ کفار کی غلامی کی ذلت اور اسلام کی بے حرمتی کی مصیبت بھی جمع ہو جائے گی۔ 8۔ وَ ابْنِ السَّبِيْلِ: مسافر خواہ صاحب حیثیت ہو اگر سفر میں اسے ضرورت پڑ جائے تو اس پر زکوٰۃ میں سے خرچ کیا جا سکتا ہے۔ 9۔ فَرِيْضَةً مِّنَ اللّٰهِ: معلوم ہوا کہ یہ مصارف فرض صدقات و عشر کے بیان ہوئے ہیں۔ چند اہل علم نے کہا کہ ضروری ہے کہ زکوٰۃ اور عشر میں آنے والا مال آٹھ حصوں میں تقسیم کیا جائے اور لازماً ہر مصرف میں خرچ کیا جائے، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء کے عمل کو سامنے رکھتے ہوئے اکثر اہل علم کا کہنا یہ ہے کہ ان میں سے جس مصرف میں زیادہ ضرورت ہو وہاں زیادہ بلکہ سب کا سب بھی صرف کیا جا سکتا ہے۔ ہاں، ان مصارف کے علاوہ خرچ کرنا جائز نہیں اور یہی بات درست ہے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دی ہے۔ یاد رہے کہ فرض صدقہ صرف مسلمانوں پر خرچ کیا جا سکتا ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجتے وقت انھیں اہل یمن کو کلمۂ شہادت اور روزانہ پانچ نمازیں تسلیم کر لینے کے بعد زکوٰۃ بتانے کا حکم دیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اموال میں صدقہ فرض فرمایا ہے : (( تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَاءِ هِمْ فَتُرَدُّ فِيْ فُقَرَاءِ هِمْ ))’’جو ان کے اغنیاء سے لیا جائے گا اور انھی کے فقراء پر واپس کر دیا جائے گا۔‘‘ [ بخاری، الزکوٰۃ، باب أخذ الزکوٰۃ من الأغنیاء....: ۱۴۹۶ ] مؤلفۃ القلوب پر خرچ بھی دراصل مسلمانوں ہی پر خرچ کی ایک صورت ہے۔