وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوا مَا آتَاهُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ سَيُؤْتِينَا اللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللَّهِ رَاغِبُونَ
اور (کیا اچھا ہوتا) اگر ایسا ہوتا کہ جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے انہیں دے دیا اس پر رضا مند ہوجاتے اور کہتے ہمارے لیے اللہ بس کرتا ہے۔ اللہ اپنے فضل سے ہمیں (بہت کچھ) عطا فرمائے گا اور اس کا رسول بھی (عطا و بخشش میں کمی کرنے والا نہیں) ہمارے لیے تو بس اللہ ہی غایت و مقصود ہے۔
1۔ وَ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ سَيُؤْتِيْنَا اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ....: یعنی کاش! وہ طعنہ زنی اور عیب جوئی کے بجائے اس طرح کہتے، کیونکہ ان کے حق میں یہی بہتر تھا اور یقیناً اللہ تعالیٰ بھی ان پر فضل کرتا مگر ان ناشکروں کو اتنی توفیق کہاں کہ اس قسم کا کلمۂ خیر کہہ سکیں، یہ تو جب بات کریں گے ایسی ہی کریں گے جس میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی برائی کا پہلو نکلتا ہو۔ 2۔ بعض لوگوں نے اس آیت سے زبردستی یہ بات نکالنے کی کوشش کی ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ رزق دیتا ہے اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی دیتے ہیں، حالانکہ ان آیات میں آپ کی زندگی میں غنیمت اور صدقات کی تقسیم کا ذکر ہو رہا ہے اور اگر شرک کی نجاست ذہن میں نہ بھری ہو تو اسی آیت میں یہ الفاظ ’’حَسْبُنَا اللّٰهُ ‘‘ (ہمیں اللہ کافی ہے) پھر ’’سَيُؤْتِيْنَا اللّٰهُ ‘‘ اور ’’ رَسُوْلُهٗ ‘‘ کے درمیان ’’مِنْ فَضْلِهٖ ‘‘ اللہ کے فضل کا ذکر کرکے دونوں کو الگ کرنا اور آخر میں ’’اِنَّا اِلَى اللّٰهِ رٰغِبُوْنَ‘‘ (بے شک ہم تو اللہ ہی کی طرف رغبت رکھنے والے ہیں) کے الفاظ واضح دلالت کر رہے ہیں کہ دینے والا فقط اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اس سے پہلے فرمایا : ’’کاش! وہ اس پر راضی ہو جاتے جو انھیں اللہ اور اس کے رسول نے دیا۔‘‘ اس کے بعد وہ الفاظ ذکر فرمائے جو اوپر ذکر ہوئے ہیں، جن کا معنی یہ ہے کہ اصل دینے والا تو اللہ ہے لیکن اس کے حکم سے تقسیم آپ کرتے تھے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((إِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللّٰهُ يُعْطِيْ )) [ بخاری، العلم، باب من یرد اللّٰہ....: ۷۱ ] ’’میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں، دینے والا تو اللہ ہی ہے۔‘‘ اپنی زندگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے حکم کے مطابق تقسیم فرماتے تھے، اب ان کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق امیرا لمومنین تقسیم فرمائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کئی جگہ یہ اعلان فرمانے کا حکم دیا کہ میں نہ اپنے نفع و نقصان کا مالک ہوں نہ تمھارے اور یہ بھی کہ اللہ کے سوا کوئی بھی کسی کی مدد نہیں کر سکتا۔ دیکھیے سورۂ جن (۲۱)، اعراف (۱۸۸، ۱۹۷، ۱۹۸) اور فاطر(۱۳ تا ۱۵) جنگ تبوک میں جب آپ سے سواریاں مانگنے کے لیے بعض مجاہد آپ کے پاس آتے اور آپ فرماتے کہ میرے پاس سواریاں نہیں ہیں جو میں تمھیں دوں، تو سواریاں حاصل نہ کر سکنے والے مجاہد روتے ہوئے واپس جاتے۔ دیکھیے سورۂ توبہ (۹۲)۔