لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِن قَبْلُ وَقَلَّبُوا لَكَ الْأُمُورَ حَتَّىٰ جَاءَ الْحَقُّ وَظَهَرَ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ كَارِهُونَ
(اے پیغمبر) یہ واقعہ ہے کہ ان لوگوں نے اس سے پہلے بھی فتنہ انگیزی کی کوششیں کیں اور تمہارے خلاف ہر طرح کی تدبیریں الٹ پلٹ کر آزمائیں (چنانچہ جنگ احد میں انہوں نے اپنی طرف سے کوئی کمی نہیں کی تھی) یہاں تک کہ سچائی نمایاں ہوگئی اور اللہ کا حکم غالب ہوا اور ایسا ہونا ان کے لیے خوشگوار نہ تھا۔
لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ....: اس آیت میں ان کے خبث باطن اور مزید مکاریوں کا پردہ چاک کیا گیا ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف مکر و فریب کرنا ان کی پرانی عادت ہے۔ پہلے بھی مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کی تدبیریں کرتے رہے، مگر جنگ بدر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو ان کے نہ چاہتے ہوئے غلبہ عطا فرمایا تو یہ بظاہر اسلام میں داخل ہوگئے، پھر بھی شرارتوں سے باز نہ آئے، جیسا کہ عبد اللہ بن ابی منافق نے غزوۂ احد کے دن کیا کہ عین میدان جنگ سے اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر لوٹ آیا۔ ہر موقع پر ان کی ہمدردیاں یہودیوں کے ساتھ رہیں، بنو نضیر اور دوسرے کئی یہودیوں کو قتل سے بچایا، بنو قریظہ کو ابھارتے رہے، ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا پر بہتان لگایا، مسجد ضرار بنا کر مسلمانوں کے خلاف مورچہ تعمیر کیا، تبوک میں جانے پر بددلی پھیلاتے رہے۔ واپسی پر جب موقع ملا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر چھپ کر حملہ آور ہونے سے بھی دریغ نہ کیا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی خاص مدد سے مکہ فتح ہونے اور تبوک کی فتح کے بعد سارا عرب اسلام میں داخل ہو گیا اور یہ بے بسی سے ہاتھ ملتے رہ گئے۔