إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ ۚ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ ۚ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ
اللہ کے نزدیک مہینوں کی گنتی بارہ مہینے کی ہے۔ اللہ کی کتاب میں ایسا ہی لکھا گیا جس دن آسمانوں کو اور زمین کو اس نے پیدا کیا (یعنی جب سے اجرام سماویہ بنے ہیں خدا کا ٹھہرایا ہوا حساب یہی ہے) ان بارہ مہینوں میں سے چار مہینے حرمت کے مہینے ہوئے (یعنی رجب، ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم کہ امن کے مہینے سمجھے جاتے تھے اور لڑائی ممنوع تھی) دین کی سیدھی راہ یہ ہے۔ پس ان حرمت کے مہینوں میں (جنگ و خوں ریزی کر کے) اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو اور چاہیے کہ تمام مشرکوں سے بلا استثنا جنگ کرو جس طرح وہ تم سے بلا استثنا جنگ کرتے ہیں اور (ساتھ ہی) یاد رکھو کہ اللہ انہی کا ساتھی ہے جو (ہرحال میں) تقوی والے ہیں۔
1۔ اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا....: سورۂ توبہ میں مشرکین سے براء ت اور ان سے جہاد کے درمیان ﴿قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ ﴾ آیت (۲۹) سے لے کر ﴿فَذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَ﴾ آیت (۳۵) تک سات آیات میں اہل کتاب سے قتال اور ان کے تینوں سربرآور دہ طبقات احبار، رہبان اور مال دار لوگوں کے بگاڑ کا ذکر اور مذمت کرنے کے بعد آگے ان دو آیات میں مشرکین کی کچھ مزید خرابیوں کا ذکر فرمایا۔ 2۔ یہود و نصاریٰ کی طرح مشرکین عرب بھی اللہ کے احکام بدلنے کے لیے حیلہ سازی سے کام لیتے تھے، مثلاً آسمان و زمین کی پیدائش کے دن سے تمام ادیان میں یہ طریقہ چلا آ رہا تھا کہ مہینے اور سال شمسی حساب یعنی سورج کے بجائے قمری حساب یعنی چاند کے لحاظ سے معتبر سمجھے جاتے تھے اور تمام عبادات میں یہی تاریخیں ملحوظ رکھی جاتی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی طریقہ قائم رکھا، کیونکہ چاند کی حالت کا روزانہ بدلنا تاریخ کے تعین میں اتنا واضح اور آسان ہے کہ آبادیوں کے علاوہ جنگلوں، پہاڑوں، صحراؤں اور سمندروں میں رہنے والے لوگ کسی کیلنڈر کی محتاجی کے بغیر مہینوں اور سالوں کا حساب آسانی سے معلوم کر سکتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا : ﴿هُوَ الَّذِيْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَآءً وَّ الْقَمَرَ نُوْرًا وَّ قَدَّرَهٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِيْنَ وَ الْحِسَابَ﴾ [ یونس : ۵ ] ’’وہی ہے جس نے سورج کو تیز روشنی اور چاند کو نور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں، تاکہ تم سالوں کی گنتی اور حساب معلوم کرو۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے تمام شرعی احکام قمری حساب کے مطابق رکھے، جس میں دوسری بے شمار حکمتوں کے ساتھ یہ حکمت بھی ہے کہ یہ عبادات ہر سال ایک ہی موسم میں نہ آئیں بلکہ بدل بدل کر آتی رہیں، ورنہ کسی علاقے میں روزے ہمیشہ گرمی میں آتے، کہیں ہمیشہ سردی میں۔ قمری حساب کی وجہ سے حج بھی مختلف موسموں میں آتا ہے، تاکہ مسلمان سختی اور نرمی دونوں حالتوں میں روزہ و حج اور اللہ کے دوسرے احکام ادا کرنے کی عادت ڈال سکیں۔ قمری مہینا ۲۹ یا ۳۰ دن کا ہوتا ہے، نہ اس سے ایک دن کم نہ زیادہ اور سال بارہ ماہ میں ۳۵۴یا ۳۵۵ دنوں کا ہوتا ہے، جبکہ شمسی سال ۳۶۵ دن اور ایک دن کے چوتھائی حصے کے برابر ہوتا ہے اور اس کے بارہ ماہ میں سے کوئی تیس، کوئی اکتیس دن کا اور فروری ۲۸ دن کا ہوتا ہے جو چوتھے سال ۲۹ دن کا شمار کیا جاتا ہے، شمسی سال کا ہر ماہ اور دن اپنے مقرر موسم ہی میں آتا ہے۔ 3۔ قمری مہینوں میں سے چار ماہ کو دین ابراہیمی میں حرمت والے مہینے قرار دیا گیا تھا، جن میں ہر قسم کی لڑائی حرام تھی، حتیٰ کہ اگر کوئی ان دنوں میں اپنے باپ کے قاتل کو بھی دیکھ لیتا تو قتل نہ کرتا، جن میں سے تین مسلسل تھے ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم، تاکہ حج کے ایام اور ان سے ایک ماہ پہلے اور ایک ماہ بعد پورے عرب میں لوگ حج کے لیے بے خوف اور پرامن ہو کر حج کر سکیں اور رجب کا مہینا الگ رکھا، تاکہ لوگ امن کے ساتھ عمرہ کے لیے آنے جانے کا سفر کر سکیں۔ 4۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں مہینوں کی گنتی بارہ ماہ ہونے کی صراحت اس لیے فرمائی ہے کہ مشرکین عرب حج کو شمسی سال کی طرح ہر سال ایک ہی دن خوشگوار موسم میں ادا کرنے کے لیے قمری مہینوں کے سال کو شمسی سال کے برابر کرنے کے لیے کبھی قمری سال میں اضافہ کر کے اسے تیرہ یا چودہ ماہ کا کر لیتے تھے اور اسے ’’کبیسہ‘‘ کہتے تھے۔ یہ بھی ’’نسئی‘‘ کی ایک صورت تھی، یعنی حرمت والے مہینے اپنے اصل مقام سے مؤخر ہو جاتے تھے اور حلال مہینوں کو وہ حرمت والا قرار دے لیتے تھے۔ جس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا اس سال اتفاق سے حج اپنے اصلی دن، یعنی قمری لحاظ سے ۱۰ ذوالحجہ کو ادا ہوا تھا، اس کے بعد سے لے کر اللہ کے حکم کے مطابق حج اور اسلام کی دوسری تمام عبادات قمری تاریخ کے مطابق اصل وقت ہی پر ادا ہو رہی ہیں۔ یہی مطلب ہے اس حدیث کا جو ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حجۃ الوداع کے خطبہ میں) فرمایا : ’’زمانہ گھوم پھر کر اپنی اس اصل پر آگیا ہے جو اس دن تھی جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ ماہ کا ہے، جن میں سے چار حرمت والے ہیں، تین پے در پے ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم اور مضر قبیلے کا رجب جو جمادی اور شعبان کے درمیان ہے۔‘‘ [ بخاری، المغازی، باب حجۃ الوداع : ۴۴۰۶ ]آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مضر کا رجب اس لیے فرمایا کہ بنو ربیعہ رمضان کو حرمت کا مہینا قرار دیتے تھے اور بنو مضر اصل رجب کو، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان ہونے کی تصریح فرمائی۔ 5۔ فَلَا تَظْلِمُوْا فِيْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ: اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسرے مہینوں میں بے شک اپنی جانوں پر ظلم کرتے رہو، بلکہ کچھ مقامات اور اوقات جو زیادہ فضیلت رکھتے ہیں، مثلاً مکہ، مدینہ، بیت المقدس، اللہ تعالیٰ کی مساجد، ماہ رمضان، لیلۃ القدر، حرمت والے ماہ وغیرہ، ان میں نیکی کی تاکید زیادہ ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى ﴾ [ البقرۃ : ۲۳۸ ] ’’سب نمازوں کی حفاظت کرو اور درمیانی نماز کی۔‘‘ اسی طرح ان میں ظلم سے باز رہنے کی تاکید بھی زیادہ ہے، حتیٰ کہ حرم مکہ میں ظلم کے ساتھ الحاد (کج روی) کے ارادے پر بھی عذاب الیم کی وعید ہے۔ دیکھیے سورۂ حج (۲۵) جب کہ دوسری جگہوں میں ارادے پر یہ مؤاخذہ نہیں۔ ایک مطلب یہ بھی ہے کہ مہینوں کو آگے پیچھے کر کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرکے اپنے آپ پر ظلم مت کرو۔ 6۔ وَ قَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَآفَّةً....: ’’كَآفَّةً ‘‘ مصدر ہے اور فاعل اور مفعول دونوں سے حال بن سکتا ہے۔ یہ لفظ اسی طرح آتا ہے، اس کا تثنیہ یا جمع نہیں آتا، نہ اس پر ’’الف لام‘‘ آتا ہے اور یہ لازماً مؤنث ہی آتا ہے، جیسا کہ ’’عَامَةٌ ‘‘ یا ’’خَاصَةٌ ‘‘ ہے۔ ’’ كَآفَّةً‘‘ کا معنی ’’جَمِيْعًا ‘‘ ہے۔ اس کی دو تفسیریں بیان کی گئی ہیں، ایک تو یہ کہ جس طرح مشرکین تم سے سب کے سب اکٹھے ہو کر لڑتے ہیں تم بھی سب مل کر ان سے اکٹھے ہو کر لڑو۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ بے شک یہ چار مہینے حرمت والے ہیں، مگر مشرکین چونکہ اس کی پروا نہیں کرتے اور عین حرمت والے مہینوں میں بھی وہ تم سے لڑنے سے دریغ نہیں کرتے، جیسا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر ذوالقعدہ میں وہ لڑنے پر تیار ہو گئے تھے، اس سے پہلے انھوں نے حرم کی حرمت کو پامال کرتے ہوئے مسلمانوں کو وہاں سے نکال دیا تھا اور پھر وہاں داخلے سے روک دیا تھا، مسلمانوں پر ظلم کرنے میں نہ حرم کا خیال رکھا نہ حرمت والے مہینوں کا، اس لیے تم بھی ان سے تمام مہینوں میں اور ہر حال میں ہر جگہ لڑو، جس طرح وہ تم سے ہر حال میں ہر جگہ اور تمام مہینوں میں لڑتے ہیں۔ تفصیل ’’التحریر والتنویر‘‘ میں دیکھیں۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ نے اس کا ترجمہ کیا ہے : ’’اور لڑو مشرکوں سے ہر حال، جیسے وہ لڑتے ہیں تم سے ہر حال۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ صراحت فرمائی ہے : ﴿اَلشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَ الْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ ﴾ [ البقرۃ : ۱۹۴ ] ’’حرمت والا مہینا حرمت والے مہینے کے بدلے ہے اور سب حرمتیں ایک دوسری کا بدلہ ہیں۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ اگر مشرکین حرمت والے مہینوں کی حرمت اور حرم مکہ کی حرمت کا پوری طرح پاس کریں اور ان میں کوئی جنگی کارروائی نہ کریں تو مسلمانوں کو بھی اس کا پاس رکھنا چاہیے، ورنہ ہر وقت اور ہر جگہ ان کے خلاف جنگ کی جائے گی، فرمایا : ﴿وَ لَا تُقٰتِلُوْهُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰى يُقٰتِلُوْكُمْ فِيْهِ ﴾ [ البقرۃ : ۱۹۱ ] ’’اور مسجد حرام کے پاس ان سے نہ لڑو، یہاں تک کہ وہ اس میں تم سے لڑیں۔‘‘