قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ
اہل کتاب میں سے جن لوگوں کا یہ حال ہے کہ نہ تو خدا پر (سچا) ایمان رکھتے ہیں نہ آخرت کے دن پر، نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے (ان کی کتاب میں) حرام ٹھہرا دیا ہے اور نہ سچے دین ہی پر عمل پیرا ہیں تو (مسلمانو) ان سے (بھی) جنگ کرو یہاں تک کہ وہ اپنی خوشی سے جزیہ دینا قبول کرلیں اور حالت ایسی ہوجائے کہ ان کی سرکشی ٹوٹ چکی ہو۔
1۔ قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ....: مشرکین عرب سے قتال ( لڑائی) کا حکم دینے کے بعد اب اہل کتاب سے قتال کا حکم دیا جا رہا ہے اور اس کی چار وجہیں بیان فرمائی ہیں : (1) ان کا اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں ہے۔ رہا ان کا اللہ تعالیٰ پر ایمان کا دعویٰ تو وہ درست نہیں، کیونکہ وہ اس کے مطابق نہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام رسولوں نے بتایا، بلکہ وہ اللہ پر ایمان کے بجائے اللہ تعالیٰ کی توہین والا عقیدہ رکھتے ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں فرمایا : ﴿وَ قَالَتِ الْيَهُوْدُ عُزَيْرُ ا۟بْنُ اللّٰهِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِيْحُ ابْنُ اللّٰهِ ﴾ [ التوبۃ : ۳۰ ] ’’اور یہودیوں نے کہا عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصاریٰ نے کہا مسیح اللہ کا بیٹا ہے۔‘‘ یعنی یہود و نصاریٰ اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دے کر اسے محتاج ثابت کر رہے ہیں اور اس کی وحدانیت کا انکار کر رہے ہیں۔ (2) یوم آخرت پر بھی ان کا ایمان کالعدم ہے، کیونکہ ایک تو وہ خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں رکھتے اور جو آپ کے بتانے کے مطابق نہ ہو وہ نہ ہونے کے برابر ہے اور پھر بھی وہ اپنے تمام اعمال بد کے باوجود جنت کے ٹھیکیدار ہونے کے دعوے دار ہیں، فرمایا : ﴿وَ قَالُوْا لَنْ يَّدْخُلَ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ كَانَ هُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى ﴾ [ البقرۃ : ۱۱۱ ] ’’جنت میں ہر گز داخل نہیں ہوں گے مگر جو یہودی یا نصاریٰ بنیں گے۔‘‘ پھر یہودیوں نے زیادہ سے زیادہ چند دن جہنم میں رہنے کی یعنی : ﴿وَ قَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّاۤ اَيَّامًا مَّعْدُوْدَةً ﴾ [ البقرۃ : ۸۰ ] اور عیسائیوں نے مسیح علیہ السلام کو اپنے گناہوں کا کفارہ قرار دے کر سرے ہی سے جہنم سے محفوظ رہنے کی آرزوئیں دل میں پال رکھی ہیں۔ کیا کوئی بھی سلیم العقل انسان ایسے یوم آخرت کو یوم جزا سمجھ سکتا ہے؟ اگر کوئی کہے کہ یہ بات تو اب بعض مسلمانوں میں بھی آ چکی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے پیشواؤں کے اعتماد پر جہنم سے بے فکر ہو چکے ہیں، تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ لوگ بھی انھی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو ان کے پیچھے چلنے سے منع فرمایا تھا۔ (3) وہ ان چیزوں کو حرام نہیں سمجھتے جو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تو ان کا ایمان ہی نہیں، اس لیے ان کی حرام کردہ کو حرام سمجھنا تو دور کی بات ہے، وہ اپنی کتاب تورات میں مذکور حرام چیزوں کو بھی حرام نہیں سمجھتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں انھوں نے سود لینا، رشوت اور حرام کھانا اختیار کر رکھا تھا، فرمایا : ﴿وَ اَخْذِهِمُ الرِّبٰوا وَ قَدْ نُهُوْا عَنْهُ وَ اَكْلِهِمْ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ ﴾ [ النساء : ۱۶۱ ] یعنی ان پر لعنت کا سبب ان کا سود لینا تھا، حالانکہ انھیں اس سے منع کیا گیا تھا اور لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھانا بھی لعنت کا سبب تھا۔ نصرانیوں نے ایک نیا دین رہبانیت نکال لیا تھا، فرمایا : ﴿وَ رَهْبَانِيَّةَ اِبْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنٰهَا عَلَيْهِمْ ﴾ [ الحدید : ۲۷ ] ’’اور رہبانیت، اسے انھوں نے خود ہی ایجاد کر لیا، ہم نے اسے ان پر نہیں لکھا تھا۔‘‘ اور اب تو یہود و نصاریٰ نے مروت و انسانیت کی ہر حد پار کر کے زنا، قوم لوط کے عمل اور بے شمار خلاف فطرت کاموں کو جمہوریت کے نام پر حلال قرار دے دیا ہے اور تمام دنیا کو زور و زبردستی سے ان میں مبتلا کرنے کی جد و جہد شروع کر رکھی ہے۔ (4) وہ دین حق قبول نہیں کرتے، حالانکہ اسے قبول کرنے کے لیے ان کے انبیاء کے صریح احکام موجود ہیں اور اسلام کے حق ہونے کے واضح دلائل ان کے سامنے ہیں۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اہل کتاب سے لڑنے کا حکم دیا۔ یہ ۹ ھ کی بات ہے، آپ نے رومیوں سے جہاد کی تیاری کی، لوگوں کو اس کے لیے دعوت دی، مدینہ کے ارد گرد سے بھی لوگوں کو بلایا، تقریباً تیس ہزار مجاہد لے کر آپ روانہ ہوئے، مدینہ اور اس کے ارد گرد کے منافقین ہی پیچھے رہ گئے، یا چند مخلص مسلمان۔ آپ نے شام کا رخ کیا، تبوک تک پہنچے، تقریباً بیس دن وہاں ٹھہرے، مگر رومی سامنے نہ آئے اور آپ اس علاقے کے لوگوں سے معاہدے کر کے واپس آ گئے۔ (ملخصاً) اس کے بعد خلفائے راشدین،بنو امیہ، بنو عباس اور دوسرے خلفاء نے یہ سلسلہ جاری رکھا تو مسلمانوں کی عزت اور غلبہ بھی قائم رہا اور مشرق سے مغرب تک ان کی حکومت بھی رہی، مگر افسوس! جب مسلمانوں نے اس حکم کو بھلا دیا تو اللہ تعالیٰ کے شرعی اور کونی نظام کی مخالفت کے نتیجے میں انھیں خود ذلیل ہو کر زندگی گزارنا قبول کرنا پڑا۔ ہاں ایک گروہ ہے جو اس پر اب بھی قائم ہے اور قائم رہے گا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق غالب رہے گا۔ 2۔ حَتّٰى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدٍ وَّ هُمْ صٰغِرُوْنَ: اس سے معلوم ہوا کہ جہاد کا مقصد ان کو تلوار کے زور سے مسلمان بنانا نہیں، بلکہ اگر وہ اطاعت قبول کر لیں اور جزیہ دیتے رہیں تو وہ اپنے دین پر رہ کر پر امن زندگی گزار سکتے ہیں، اس کے عوض اسلامی حکومت ان کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ دار ہو گی۔ یہاں صرف اہل کتاب سے جزیہ لینے کا ذکر ہے، یعنی اہل کتاب کے سامنے تین راستے ہیں، مسلمان ہو جائیں یا جزیہ دے کر ماتحتی قبول کر لیں یا لڑائی کے لیے تیار ہو جائیں۔ رہے دوسرے کفار تو عرب کے مشرکین کے سامنے دو ہی راستے تھے، اسلام قبول کریں یا قتل ہونے کے لیے تیار ہو جائیں، الا یہ کہ وہ اس سے پہلے ہی جزیرۂ عرب سے نکل جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجوس سے بھی اہل کتاب والا معاملہ کیا۔ [ بخاری، الجزیۃ، باب الجزیۃ والموادعۃ مع أھل الذمۃ والحرب : ۳۱۵۶، عن عبد الرحمن بن عوف رضی اللّٰہ عنہ ] باقی دنیا کے مشرکین کے متعلق تاریخ اسلام میں مشرکین عرب والے سلوک کا کہیں ذکر نہیں، مثلاً ہندو، بدھ اور دوسرے بت پرست وغیرہ، بلکہ مسلمانوں نے انھیں بھی اپنی رعایا بنا کر ان سے بہترین سلوک کیا۔ اگر اسلامی لڑائی کا مقصد لوگوں کو زبردستی مسلمان بنانا ہوتا تو جس طرح عیسائیوں نے اندلس میں اسلام اور مسلمانوں کا نام و نشان عیسائی نہ ہونے پر مٹا دیا، اسی طرح مصر، شام، عراق، ایران، ہند، چین، ترکستان وغیرہ ہر جگہ سے بزور شمشیر کفار کو ختم کر دیا جاتا۔ برصغیر میں مسلمان اقلیت میں نہ ہوتے، بلکہ سارا ہند مسلمان ہوتا اور یہاں کفار کا نام و نشان تک نہ ہوتا، مگر اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا، ارشاد ہوتا ہے : ﴿لَاۤ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ﴾ [ البقرۃ : ۲۵۶ ] ’’دین میں زبردستی نہیں۔‘‘ جو مسلمان ہو سوچ سمجھ کر مسلمان ہو۔ ہاں یہ بات حق ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ کسی طرح قبول نہیں کہ دنیا میں اللہ کے باغی غالب ہوں اور اسلام اور مسلمان مغلوب ہو کر رہیں، کیونکہ اس صورت میں نہ دنیا میں امن قائم ہو سکتا ہے نہ فتنہ و فساد ختم ہو سکتا ہے۔ امن صرف اسلام ہی کے ذریعے سے ممکن ہے، اس لیے تمام دنیا کے کفار سے اسلام قبول کرنے یا جزیہ دینے تک لڑتے رہنے کا حکم دیا گیا اور یہ بھی ضروری قرار دیا گیاکہ کفار میں اتنی قوت کبھی نہ ہونے پائے کہ وہ مسلمانوں کے مقابلے میں آ سکیں، بلکہ لازم ہے کہ وہ اسلام کے مقابلے سے دستبردار ہو کر خود اپنے ہاتھوں سے جزیہ دیں اور حقیر ہو کر رہیں۔ ’’صٰغِرُوْنَ‘‘ کا معنی یہی ہے کہ وہ محکوم بن کر اسلام کے سائے میں زندگی بسر کریں۔ اس جزیے کی رقم کا تعین ہر علاقے کے لوگوں کی مالی حالت کو مد نظر رکھ کر کیا جائے گا، جو ان کے ہر شخص کی طرف سے ہر سال ادا کیا جائے گا۔ معاذ رضی اللہ عنہ یمن گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ہر بالغ سے ایک دینار یا اس کے برابر وہاں کے بنے ہوئے کپڑے وصول کرنے کا حکم دیا۔ [ أبو داؤد، الخراج، باب فی أخذ الجزیۃ : ۳۰۳۸ ]