يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَٰذَا ۚ وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيكُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ إِن شَاءَ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
مسلمانو ! حقیقت حال اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ مشرک نجس ہیں (یعنی شرک نے ان کے دلوں کی پاکی سلب کرلی ہے) پس چاہیے کہ اب اس برس کے بعد سے (٩ ہجری کے بعد سے) مسجد حرام کے نزدیک نہ آئیں اور اگر تم کو (ان کی آمد و رفت کے بند ہوجانے سے) فقر و فاقہ کا اندیشہ ہو (کہ وہ ہر طرح کی ضروری چیزیں ہیں باہر سے لاتے اور تجارت کرتے ہیں) تو گھبراؤ نہیں، اللہ چاہے گا تو عنقریب تمہیں اپنے فضل سے تونگر کردے گا، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور (اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے۔
1۔ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ....: زمخشری نے فرمایا : ’’نَجَسٌ ‘‘ مصدر ہے، کہا جاتا ہے ’’نَجَِسَ نَجَسًا وَ قَذَِرَ قَذَرًا (ع، ن) ‘‘ گندا، ناپاک، پلید ہونا۔ گویا تمام مشرک اتنے ناپاک ہیں کہ یوں سمجھو کہ وہ سراسر نجاست ہیں۔ ناپاک ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ عقائد و اعمال اور اخلاق کے لحاظ سے گندے ہیں، ان کی نجاست معنوی نجاست ہے، بدن ناپاک ہونا مراد نہیں کہ اسے ہاتھ لگنے یا اس کے ہاتھ لگانے سے کوئی چیز پلید ہو جاتی ہو، اس لیے اہل کتاب عورتوں سے نکاح کرنا، انھیں لونڈی و غلام بنا کر خدمت لینا جائز ہے اور یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مشرک عورت کے مشکیزوں کا پانی پیا۔ [ بخاری : ۳۵۷۱ ] اور آپ نے خیبر کے یہود کی دعوت قبول فرمائی۔ [ بخاری : ۲۶۱۷ ] اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کا ہاتھ یا جسم لگنے سے کوئی چیز پلید نہیں ہوتی۔ ویسے اگر دیکھا جائے تو مشرک بدنی طور پر بھی طہارت کا اہتمام نہیں کرتے، نہ استنجا، نہ غسل جنابت، نہ زیر ناف کی صفائی، نہ کسی نجاست سے اجتناب، پھر خنزیر کھانا، سگریٹ اور شراب پینا اور زنا کرنا ان کی عام روش ہے۔ الغرض مشرک جتنا بھی صاف ستھرا ہو، فرانس وغیرہ کی بنی ہوئی خوشبو جتنی بھی لگا لے اس کے جسم اور کپڑوں سے بد بو ختم نہیں ہوگی۔ مسلمان جتنا بھی میلا کچیلا ہو اس سے اس قسم کی بد بو کبھی نہیں آئے گی، بشرطیکہ نماز پڑھتا ہو، اگر نماز ہی نہیں پڑھتا تو مشرک کا اور اس کا معاملہ ایک جیسا ہی ہے۔ یہ عام مشاہدے کی بات ہے، اس لیے کفار کو مسلمان ہونے سے پہلے غسل کی تاکید کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کو ناپاک قرار دے کر آئندہ کے لیے مسجد حرام کے قریب آنے سے بھی منع فرما دیا، چنانچہ جیسا کہ پہلے گزرا ہے ۹ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کروایا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک ہر گز حج نہیں کرے گا۔ قریب آنے سے ممانعت کا صاف مطلب ہے کہ غیر مسلم کا پورے حرم مکہ میں داخلہ منع ہے۔ مسند احمد کی ایک روایت ابن کثیر نے جابر رضی اللہ عنہ سے نقل فرمائی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ہمارے اس سال کے بعد ہماری اس مسجد میں ذمی اور ان کے خادم کے سوا کوئی نہ آئے۔‘‘ مسند احمد میں ایک اور روایت ہے : ’’ہماری اس مسجد میں ہمارے اس سال کے بعد اہل کتاب اور ان کے خادموں کے سوا کوئی داخل نہ ہو۔‘‘ مگر یہ دونوں روایتیں ثابت نہیں۔ شعیب الارنؤوط نے دونوں کی سند کو ضعیف کہا ہے، حسن بصری نے جابر رضی اللہ عنہ سے نہیں سنا اور دو راوی اشعث بن سوار اور شریک ضعیف ہیں، لہٰذا کسی بھی غیر مسلم کو حرم مکہ میں داخلے کی اجازت نہیں، بلکہ اپنی آخری وصیت میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین اور یہود و نصاریٰ کو جزیرۂ عرب ہی سے نکال دینے کا حکم دیا تھا، چنانچہ اس وصیت کے مطابق امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ نے یہود و نصاریٰ کو بھی جزیرۂ عرب سے نکال دیا۔ 2۔ مسجد حرام کے سوا دوسری مساجد میں غیر مسلم داخل ہو سکتا ہے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض مشرکوں کو اپنی مسجد میں آنے کی اجازت دی اور ثمامہ کو مسجد کے ستون سے باندھنے کا واقعہ تو مشہور ہی ہے۔ 3۔ وَ اِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً....: غیر مسلموں کی سال بھر تجارت اور حج و عمرہ کے لیے آمد و رفت بند ہونے سے وہ سامان تجارت جو وہ لایا کرتے تھے اور دوسرے مالی فوائد جوان کی آمد سے اہل مکہ کو حاصل ہوتے تھے، لازماً ختم ہوتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے اس اندیشے کو رفع کرنے اور مسلمانوں کو تسلی دینے کے لیے یہ الفاظ نازل فرمائے کہ تجارت اور کاروبار کی بندش کی فکر مت کرو، اللہ تعالیٰ چاہے گا تو تمھیں ضرور غنی کر دے گا، وہ سب کچھ جانتا ہے، یہ تو اس کے لیے کوئی بات ہی نہیں کہ وہ مسلمانوں کو کیسے غنی کرتا ہے، مگر اس کا ہر کام اور ہر طریقہ حکمت پر مبنی ہے۔ چنانچہ اس کے بعد فتوحات عالم کا وہ سلسلہ شروع ہوا کہ قیصر و کسریٰ کے خزانے مسلمانوں کے ہاتھ آئے اور وہ سب اللہ کے فضل سے غنی ہو گئے، پھر حج و عمرہ کرنے والے مسلمانوں کی اتنی کثرت ہوئی کہ اہل مکہ کے لیے فقر کا مسئلہ ہی نہ رہا۔ اس وقت ۱۴۳۱ھ میں تقریباً ۳۵ یا ۴۰ لاکھ حاجیوں نے حج ادا کیا ہے اور حکومت سعودیہ کا اندازہ ہے کہ چند ہی سال میں یہ تعداد ایک کروڑ تک پہنچ جائے گی اور حکومت اس کے مطابق باقاعدہ حرم کی عمارات اور رہائشی عمارات کی توسیع کے منصوبے پر نہایت تیزی کے ساتھ عمل کر رہی ہے۔ 4۔ اِنْ شَآءَ: یہ بطور شرط نہیں بلکہ بات کو پختہ کرنے کے لیے ہے، کیونکہ ہر معاملہ اللہ کی مشیت پر موقوف ہے ۔تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ فتح (۲۷)۔