أَلَا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَّكَثُوا أَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَهُم بَدَءُوكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ ۚ أَتَخْشَوْنَهُمْ ۚ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَوْهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
(مسلمانو) کیا تم ایسے لوگوں سے جنگ نہیں کرتے جنہوں نے اپنے عہد و پیمان کی قسمیں توڑ ڈالیں، جنہوں نے اللہ کے رسول کو اس کے وطن سے نکال باہر کرنے کے منصوبے کیے اور پھر تمہاری برخلاف لڑائی میں پہلی بھی انہی کی طرف سے ہوئی؟ کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ (اگر ڈرتے ہو تو تم مومن نہیں کیونکہ) اگر مومن ہو تو اللہ اس بات کا زیادہ سزا وار ہے کہ اس کا ڈر تمہارے دلوں میں بسا ہوا۔
1۔ اَلَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَّكَثُوْا اَيْمَانَهُمْ....: اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو نہایت بلیغ طریقے سے کفار کے خلاف جنگ پر ابھارا ہے اور انھیں جوش اور غیرت دلائی ہے کہ جن لوگوں کے یہ جرائم ہیں کیا تم ان کے خلاف بھی نہیں لڑو گے؟ پھر ان کے تین جرم بیان فرمائے، پہلا یہ کہ انھوں نے اپنے عہد توڑ ڈالے اور وہ قسمیں بھی جو عہد پختہ کرنے کے لیے کھائی تھیں، صلح حدیبیہ ہو جانے کے بعد بھی وہ بنو خزاعہ کے خلاف ( جو مسلمانوں کے حلیف تھے) بنو بکر کی پیٹھ ٹھونکتے اور اسلحہ وغیرہ سے ان کی مدد کرتے رہے، حالانکہ ان کا ایسا کرنا صلح کے معاہدے کی صریح خلاف ورزی تھی۔ دوسرا یہ کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تھے تو وہ آپ کے خلاف منصوبے سوچتے رہتے، جیسا کہ سورۂ انفال ( ۳۰) میں گزر چکا ہے کہ قتل، قید اور کم از کم یہ کہ آپ کو مکہ سے نکال دیں، یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنے کسی ارادے میں کامیاب نہ ہو سکے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اللہ کے حکم سے ہجرت کی اور تیسرا یہ کہ پہلی بار لڑنے کی ابتدا انھوں نے کی کہ بدر کے موقع پر جب ان کا تجارتی قافلہ بچ گیا تھا تو انھوں نے واپس جانے کے بجائے خواہ مخواہ جنگ چھیڑی۔ اس کے بعد احد، خندق اور بنو خزاعہ کے خلاف جنگ کی ابتدا بھی انھوں نے کی۔ ان تینوں میں سے ہر جرم ہی ان سے لڑنے کا کافی سبب ہے، اب یہ تین سبب جمع ہونے پر بھی کیا تم ان سے نہیں لڑو گے؟ 2۔ اَتَخْشَوْنَهُمْ۠ فَاللّٰهُ اَحَقُّ....: یہ بھی جنگ پر ابھارنے کا ایک زبردست طریقہ ہے کہ کسی کو کہا جائے کہ کیا تم دشمنوں سے ڈرتے ہو ؟ غیرت مند یہی کہے گا اور کر کے دکھائے گا کہ نہیں، میں دشمنوں سے نہیں ڈرتا، پھر مسلمانوں کی ہمت بندھائی کہ تم تو اللہ پر ایمان و یقین رکھنے والے ہو کہ فتح و شکست اور نفع و نقصان اسی کے ہاتھ میں ہے، ایسی صورت میں تو لازماً حق بنتا ہے کہ تم کفار کے بجائے اللہ سے ڈرو اور ان سے قتال کرو۔