فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ ۗ وَنُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ
بہرحال اگر یہ باز آئیں نماز قائم کریں زکوۃ ادا کریں تو (پھر ان کے خلاف تمہارا ہاتھ نہیں اٹھنا چاہیئے) وہ تمہارے دینی بھائی ہیں، ان لوگوں کے لیے جو جاننے والے ہیں تم اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کردیتے ہیں۔
1۔ فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ....: یعنی ایمانی اخوت، جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۂ حجرات (۱۰) میں کیا ہے : ﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ ﴾ ’’مومن تو سب بھائی ہی ہیں‘‘ وہ ان تین چیزوں کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔ ان تین چیزوں سے انھیں اسلامی معاشرے میں وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو دوسرے مسلمانوں کو حاصل ہیں۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’یہ جو فرمایا بھائی ہیں حکم شرع میں، اس میں سمجھ لیں کہ جو شخص قرائن سے معلوم ہو کہ ظاہر میں مسلمان ہے اور دل سے یقین نہیں رکھتا تو چاہے اسے حکم ظاہری میں مسلمان گنیں، مگر معتمد اور دوست نہ پکڑیں۔‘‘ (موضح) یہ بات پہلے بھی گزری ہے یہاں مزید تاکید ہو گئی کہ نماز اور زکوٰۃ کا محض اقرار ہی اخوت دینی کے لیے کافی نہیں بلکہ عملاً ان کی ادائیگی امت مسلمہ میں شامل ہونے کے لیے ضروری ہے اور مسلمان حاکم پر لازم ہے کہ ان کی عدم ادائیگی پر باز پرس کرے اور سزا دے اور اگر وہ ان کی ادائیگی سے انکار یا ان کا مذاق اڑائیں تو ابو بکر رضی اللہ عنہ کی طرح انھیں مرتد قرار دے کر ان سے جنگ کی جائے۔ 2۔ وَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ: جاننے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ کی نافرمانی کا انجام سمجھتے اور اس کا خوف اپنے دلوں میں رکھتے ہیں، ایسے ہی لوگ ہیں جو اس کی آیات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔