سورة التوبہ - آیت 7

كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ عِندَ اللَّهِ وَعِندَ رَسُولِهِ إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدتُّمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۖ فَمَا اسْتَقَامُوا لَكُمْ فَاسْتَقِيمُوا لَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ (ان) مشرکوں کا عہد اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک عبد ہو؟ ہاں جن لوگوں کے ساتھ تم نے مسجد حرام کے قریب (حدیبیہ میں) عہد و پیمان باندھا تھا (اور انہوں نے اسے نہیں توڑا) تو (ان کا عہد ضرور عہد ہے اور) جب تک وہ تمہارے ساتھ (اپنے عہد پر) قائم رہیں تم بھی ان کے ساتھ (اپنے عہد پر) قائم رہو۔ اللہ انہیں دوست رکھتا ہے جو (اپنے تمام کاموں میں) متقی ہوتے ہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

كَيْفَ يَكُوْنُ لِلْمُشْرِكِيْنَ۠ عَهْدٌ....: یعنی وہ لوگ جو ہیں ہی مشرک، جنھوں نے اپنے خالق کی توحید کا عہد ہی پورا نہیں کیا، ان کی طرف سے کوئی عہد پورا ہونا کیسے ممکن ہے، وہ تو جو عہد کرتے ہیں توڑ ڈالتے ہیں۔ اِلَّا الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ: ان سے مراد وہی لوگ ہیں جن کا ذکر پہلے ﴿اِلَّا الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ثُمَّ لَمْ يَنْقُصُوْكُمْ شَيْـًٔا وَّ لَمْ يُظَاهِرُوْا عَلَيْكُمْ اَحَدًا فَاَتِمُّوْۤا اِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ اِلٰى مُدَّتِهِمْ ﴾ [ التوبۃ : ۴ ] میں گزر چکا ہے۔ صلح حدیبیہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور کفار قریش کے درمیان دس سال کے لیے قرار پائی، یہ صلح نامہ چونکہ حدیبیہ کے مقام پر قرار پایا تھا جو حدود حرم کے قریب ہے، اس لیے اسے ’’عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ‘‘ فرما دیا۔ (ابن کثیر) مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اس عہد پر قائم رہے ان سے قتال مت کرو۔ اس معاہدے میں شرط یہ تھی کہ ایک دوسرے پر حملہ آور نہیں ہوں گے اور نہ دوسرے کے خلاف کسی کی مدد کریں گے۔ اس معاہدے میں بنو خزاعہ مسلمانوں کے ساتھ شامل تھے اور بنو بکر قریش کے حلیف تھے، مگر کچھ عرصہ بعد بنو بکر اور بنو خزاعہ کے درمیان لڑائی چھڑ گئی اور مشرکین نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بنو خزاعہ کے خلاف بنو بکر کی مدد کی، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان ۸ھ کو مکہ پر حملہ کر کے اسے فتح کر لیا۔ (ابن کثیر) ابن جریر طبری نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ اس سے مراد بنو بکر کے وہ قبائل ہیں جو صلح حدیبیہ والے اپنے عہد پر قائم رہے اور انھوں نے بنو خزاعہ پر نہ حملہ کیا، نہ اس میں مدد کی، کیونکہ ان آیات کے نزول کے وقت فتح مکہ کو ایک سال گزر چکا تھا، قریش کو ان کی بد عہدی کی سزا بھی مل چکی تھی۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’صلح والے تین قسم فرمائے، ایک جن سے مدت نہیں ٹھہری، ان کو جواب دیا (کہ تم کو چار ماہ کی مہلت دی جاتی ہے) مگر جو مکے کی صلح میں شامل تھے (تو) جب تک وہ دغا نہ کرے، یہ ادب ہے مکہ کا اور تیسرے جن سے مدت ٹھہری وہ صلح قائم رہی، لیکن آخر سب مشرک عرب کے ایمان لائے۔‘‘ (موضح) ’’اسْتَقَامُوْا ‘‘ میں حروف ’’سین‘‘ اور ’’تا‘‘ کی زیادتی کی وجہ سے ترجمہ ’’پوری طرح قائم رہیں‘‘ کیا گیا ہے۔ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ: اور عہد کا پورا کرنا بھی متقی ہونے کے لیے ضروری شرط ہے۔