سورة التوبہ - آیت 3

وَأَذَانٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ أَنَّ اللَّهَ بَرِيءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ ۙ وَرَسُولُهُ ۚ فَإِن تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ ۗ وَبَشِّرِ الَّذِينَ كَفَرُوا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حج کے بڑے دن عام منادی کی جاتی ہے کہ اللہ مشرکوں سے بری الذمہ ہے اور اس کا رسول بھی (یعنی اب کوئی معاہدہ اللہ کے نزدیک باقی نہیں رہا اور نہ اس کا رسول کسی معاہدہ کے لیے ذمہ دار ہے) پس اگر تم (اب بھی ظلم و شرارت سے) توبہ کرلو تو تمہارے لیے اس میں بہتری ہے اور اگر نہ مانو گے تو جان رکوھ تم اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے اور (اے پیغمبر) جو لوگ کفر کی راہ چل رہے ہیں انہیں عذاب دردناک کی خوشخبری سنا دو۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اَذَانٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ اِلَى النَّاسِ....: یوم حج اکبر سے مراد ۱۰ ذوالحجہ ہے، جس دن حاجی منیٰ میں آکر قربانی کرتے ہیں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مجھے ان لوگوں کے ہمراہ بھیجا جو قربانی کے دن منیٰ میں اعلان کریں کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کر ے گا اور کوئی ننگا شخص بیت اللہ کا طواف نہیں کرے گا اور حج اکبر کا دن یوم النحر(قربانی کا دن) ہے، کیونکہ لوگ ( عمرے کو) حج اصغر کہتے تھے، چنانچہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس سال صاف اعلان کروا دیا، تو حجۃ الوداع جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا، کسی مشرک نے حج نہیں کیا۔ [ بخاری، الجزیۃ و الموادعۃ، باب کیف ینبذ إلی أہل العھد ؟ : ۳۱۷۷ ] اس سے معلوم ہوا کہ بعض لوگ جو اس حج کو حج اکبر کہتے ہیں جو جمعہ کے دن آئے ان کی بات درست نہیں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے ایک روایت میں مزید اضافہ ہے کہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو یہ اعلان دے کر بھیجا، پھر آپ نے ان کے بعد علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ وہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے) یہ اعلان کریں، چنانچہ ابو بکر رضی اللہ عنہ ، جو امیر حج تھے، ان کے حکم پر میں نے، میرے ساتھیوں نے اور علی رضی اللہ عنہ نے منیٰ میں یہ اعلان کیا۔ [ بخاری، التفسیر، باب قولہ : ﴿ و أذان من اللہ....﴾ : ۴۶۵۶ ] مسند احمد میں ہے کہ چار ماہ کی مہلت دینے، ننگے کو طواف کی اجازت ختم کرنے اور آئندہ سال کسی مشرک کے حج نہ کرنے کے اعلان کے ساتھ ایک اعلان یہ بھی کرتے تھے کہ جنت میں ایمان والوں کے سوا کوئی داخل نہیں ہو گا۔ [أحمد :2؍299، ح : ۷۹۹۶ ] وَ اِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوْا....: یہ اعلان تاکید کے لیے دوبارہ کیا گیا، تا کہ کافر اپنے آپ کو اللہ کی پکڑ سے کسی طرح بھی بچ نکلنے والے نہ سمجھیں۔