سورة التوبہ - آیت 1

بَرَاءَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(مسلمانوں) جن مشرکوں کے ساتھ تم نے (صلح و امن کا) معاہدہ کیا تھا اب اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بری الذمہ ہونے کا ان کے لیے اعلان ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

یہ پوری کی پوری سورت مدنی ہے جو فتح مکہ کے بعد ۹ھ میں نازل ہوئی۔ چونکہ سورۂ توبہ اور انفال میں ذکر ہونے والے واقعات ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں، اس لیے ان دونوں سورتوں کو ایک سورت کے حکم میں رکھا گیا ہے اور ان دونوں کے درمیان ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ نہیں لکھی گئی اور یہ سبع طوال ( سات لمبی سورتوں) میں سے ساتویں سورت ہے، جن کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَنْ أَخَذَ السَّبْعَ الْأَوَلَ مِنَ الْقُرْآنِ فَهُوَ حَبْرٌ (( ’’جس نے قرآن مجید کی یہ پہلی سات سورتیں حاصل کر لیں وہ بہت بڑا عالم بن گیا۔‘‘ [ أحمد :6؍82، ح : ۲۴۵۸۵، عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا] اس کے کئی نام ہیں جن میں سے ایک ’’توبہ‘‘ اور دوسرا ’’براء ۃ‘‘ ہے۔ ’’ توبہ‘‘ اس اعتبار سے کہ اس میں ایک مقام پر بعض اہل ایمان کی توبہ قبول ہونے کا ذکر ہے اور ’’ براء ۃ ‘‘ اس لحاظ سے کہ اس کے شروع میں مشرکین سے براء ت کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس کو ’’سورۃ الفاضحہ‘‘ یعنی ( منافقوں کو) رسوا کرنے والی سورت بھی کہتے ہیں۔ اس سورت کے شروع میں ’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ نہیں لکھی جاتی، مفسرین نے اس کی متعدد وجوہ بیان کی ہیں، مثلاً یہ کہ اس میں مشرکین سے قطع تعلق اور مسلمان نہ ہونے کی صورت میں ان کے قتل کا حکم ہے اور اہل کتاب کے مسلمان نہ ہونے یا جزیہ نہ دینے کی صورت میں ان سے مسلسل لڑتے رہنے کا حکم ہے وغیرہ، مگر سب سے معقول اور سیدھی سادی بات یہ ہے کہ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے شروع میں ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ نہیں لکھوائی اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نہیں لکھی۔ بَرَآءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ....: اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان تمام معاہدوں کی تنسیخ کا اعلان فرمایا ہے جو مسلمانوں نے مشرکوں سے کیے تھے۔ منسوخ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ مشرکین ان عہد ناموں کو بار بار توڑ دیتے تھے اور ان کی شرائط کو پورا نہیں کرتے تھے، خصوصاً جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے بعد تبوک گئے تو کفار نے سمجھا کہ مسلمان رومیوں کی طاقت کے مقابلے میں فنا ہو جائیں گے، اس لیے انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں سے کیے ہوئے کسی عہد کا لحاظ رکھا نہ باہمی رشتہ داری کا، فرمایا : ﴿لَا يَرْقُبُوْنَ فِيْ مُؤْمِنٍ اِلًّا وَّ لَا ذِمَّةً﴾ [ التوبۃ : ۱۰ ] ’’یہ لوگ کسی مومن کے بارے میں نہ کسی قرابت کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ کسی عہد کا۔‘‘اور فرمایا : ﴿اَلَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَّكَثُوْۤا اَيْمَانَهُمْ ﴾ [ التوبۃ : ۱۳ ] ’’کیا تم ان لوگوں سے نہ لڑو گے جنھوں نے اپنی قسمیں توڑ دیں۔‘‘ مگر اللہ تعالیٰ کا خاص کرم دیکھو کہ ان مشرکین کو اچانک حملہ کر کے برباد کرنے کے بجائے پہلے تمام عہد منسوخ کرنے کا اعلان دنیا کے سب سے بڑے مجمع میں کیا گیا۔ ۹ھ میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زیر امارت حج کے دن دس ذوالحجہ یوم نحر کو میدان منیٰ میں دنیا بھر سے آئے ہوئے لوگوں کی موجودگی میں اعلان ہوا اور کئی آدمی مقرر کیے گئے، جنھوں نے اس مجمع کے ہر مقام پر پہنچ کر بلند آواز کے ساتھ یہ اعلان کیا۔ اس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خود حج پر نہ جانے کی وجہ یہ تھی کہ اس اعلان کے بعد ہی مکہ میں مشرکوں کا داخلہ بند ہوا اور ان کی بے حیائی کی رسمیں ختم ہوئیں۔