وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوا وَّنَصَرُوا أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا ۚ لَّهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ
(غرض کہ) جو لوگ ایمان لائے، ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے (مہاجرین مکہ کو) پناہ دی اور مدد کی تو فی الحقیقت یہی (سچے) مومن ہیں، ان کے لیے بخشش ہے اور عزت کی روزی۔
وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ هَاجَرُوْا....: اس آیت میں مسلمانوں کے پہلے دو گروہوں، یعنی مہاجرین اولین اور انصار کی تعریف فرمائی ہے، کیونکہ پہلے ان کا ذکر باہمی دوستی اور تعاون کی تاکید کے لیے تھا۔ اس آیت میں ان کی تعریف تین طرح سے کی ہے، پہلا تو یہ کہ یہ لوگ ایمان، ہجرت، جہاد اور اہل ایمان کو جگہ دینے اور نصرت کی وجہ سے پکے مومن ہیں، بخلاف ان کے جو ایمان تو لائے مگر ہجرت نہیں کی، جس کی وجہ ان کے ایمان کی خامی ہے۔ دیکھیے سورۂ نساء (۹۷) حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان مہاجرین و انصار کے لیے ﴿اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا﴾ بہت بڑی سند ہے۔ دوسرا ان کے لیے عظیم مغفرت اور بخشش ہے۔ ’’مَغْفِرَةٌ ‘‘ میں تنوین تعظیم کے لیے ہے۔ تیسرا یہ کہ ان کے لیے رزق کریم ہے، اس میں جنت کی بے شمار نعمتوں کے ساتھ دنیا میں باعزت روزی کا وعدہ ہے۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ دنیا میں عزت کی روزی سے مراد مال غنیمت اور فے ہے، جو خالص ان لوگوں کا حق ہے جو سردار کے ساتھ شریک جنگ ہوں۔ (موضح)