سورة البقرة - آیت 116

وَقَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا ۗ سُبْحَانَهُ ۖ بَل لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ كُلٌّ لَّهُ قَانِتُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (عیسائیوں کو دیکھو) انہوں نے کہا خدا نے (نوع انسانی کا گناہ معاف کرنے کے لیے مسیح کو) اپنا بیٹا بنایا حالانکہ خدا کی ذات اس سے پاک (وہ کیوں اس بات کا محتاج ہو کہ کسی کو اپنا بیٹا بنائے) زمین اور آسمان میں جو کچھ ہے سب اسی کا ہے اور سب اس کے فرمان کے آگے جھکے ہوئے ہیں

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اللہ کی مسجدوں سے روکنے والوں کا یہ ایک اور ظلم بیان فرمایا کہ انھوں نے کہا، اللہ نے کوئی اولاد بنا رکھی ہے۔ چنانچہ یہود نے عزیر علیہ السلام کو اور نصاریٰ نے مسیح علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا قراردیا، اسی طرح مشرکین عرب نے فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیا۔ اللہ تعالیٰ نے کئی طرح سے اس کا رد فرمایا، پہلے ’’ سُبْحٰنَهٗ ‘‘ کے ساتھ کہ اولاد تو محتاجی کی دلیل ہے اور اللہ اس سے پاک ہے۔ (دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل : ۱۱۱) دوسرے یہ کہ اللہ آسمان و زمین کا مالک ہے، جس میں عزیر علیہ السلام ، مسیح علیہ السلام اور فرشتے سب شامل ہیں ۔ مالک اور مملوک باپ بیٹا کیسے ہو سکتے ہیں ! بیٹا تو باپ کا مملوک بن بھی جائے تو خود بخود آزاد ہو جاتا ہے۔ تیسرا یہ کہ بیٹا سرکشی بھی کر سکتا ہے، جب کہ آسمان و زمین میں رہنے والے سب اللہ کے فرمان کے تابع ہیں ، ان کا سانس بھی اس کے حکم کے بغیر نہیں چلتا۔