إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوا وَّنَصَرُوا أُولَٰئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يُهَاجِرُوا مَا لَكُم مِّن وَلَايَتِهِم مِّن شَيْءٍ حَتَّىٰ يُهَاجِرُوا ۚ وَإِنِ اسْتَنصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ إِلَّا عَلَىٰ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَاقٌ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
جو لوگ ایمان لائے، ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جانوں سے جہاد کیا اور جن لوگوں نے (مکہ کے مہاجروں کو مدینہ میں) جگہ دی اور ان کی مدد کی تو یہی لوگ ہیں کہ ان میں سے ایک دوسرے کا کارساز و رفیق ہے اور جن لوگوں کا حال ایسا ہوا کہ ایمان تو لائے مگر ہجرت نہیں کی تو تمہارے لیے ان کی اعانت و رفاقت میں سے کچھ نہیں ہے جب تک وہ اپنے وطن سے ہجرت نہ کریں۔ ہاں اگر دین کے بارے میں تم سے مدد چاہیں تو بلا شبہ تم پر ان کی مددگاری لازم ہے، الا یہ کہ کسی ایسے گروہ کے مقابلہ میں مدد چاہی جائے جس سے تمہارا (صلح و امن کا) عہد وپیمان ہے ( کہ اس صورت میں تم عہد و پیمان کے خلاف قدم نہیں اٹھا سکتے) اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ کی نگاہ سے پوشیدہ نہیں۔
1۔ سورۂ انفال کے آخر میں ان آیات سے واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسلمان چار قسم کے تھے، پہلے وہ جو پہلی ہجرت کرنے والے مہاجرین اولین ہیں، دوسرے انصار مدینہ، تیسرے وہ مومن جنھوں نے ہجرت نہیں کی اور چوتھے وہ جنھوں نے صلح حدیبیہ کے بعد ہجرت کی۔ 2۔ اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ هَاجَرُوْا....: ان سے مراد اولین مہاجر ہیں جو سب سے افضل ہیں۔ 3۔ وَ الَّذِيْنَ اٰوَوْا وَّ نَصَرُوْا: یہ انصار ہیں، ان کی فضیلت بھی بے شمار ہے، مگر اس بات پر اتفاق ہے کہ مہاجرین انصار سے افضل ہیں۔ عبد اللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اگر ہجرت ( کی فضیلت) نہ ہوتی تو میں انصار میں سے ایک شخص ہوتا۔‘‘ [ بخاری، المغازی، باب غزوۃ الطائف....: ۴۳۳۰ ] 4۔ اُولٰٓىِٕكَ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَآءُ بَعْضٍ: ’’اَوْلِيَآءُ ‘‘ سے مراد دوست، حمایتی اور مدد گار بھی ہو سکتے ہیں اور ایک دوسرے کے وارث بھی۔ دوسرے مفہوم کے مطابق اشارہ ہو گا اس مؤاخات ( بھائی چارے) کی طرف جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد مہاجرین و انصار کے درمیان قائم کیا، جس کی بنا پر جاہلیت کے رواج کے مطابق آپس میں بھائی بننے والے ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے، یہاں تک کہ میراث کی آیت : ﴿وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ ﴾ [الأنفال : ۷۵ ] نازل ہوئی تو یہ طریقہ منسوخ ہو گیا۔ 5۔ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ يُهَاجِرُوْا: یہ اس عہد کے مسلمانوں کی تیسری قسم ہے۔ دار الاسلام قائم ہونے کے باوجود اس کی طرف ہجرت نہ کرنے اور کفار کی غلامی میں رہنے پر قناعت کا مطلب یہ ہے کہ ان کا ایمان کچا ہے، یہ لوگ جہاد میں حصہ لے ہی نہیں سکتے، اس لیے ان کے ساتھ پہلے دو فریقوں جیسی دوستی اور حمایت کسی طرح بھی نہیں ہو سکتی، جب تک ہجرت نہ کریں۔ 6۔ وَ اِنِ اسْتَنْصَرُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ....: مثلاً کافر ان پر ظلم کر رہے ہوں اور وہ تم سے مدد مانگیں تو تم پر انھیں ظالموں کے پنجے سے چھڑانا فرض ہے، فرمایا : ﴿وَ مَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَ الْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآءِ وَ الْوِلْدَانِ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اَخْرِجْنَا مِنْ هٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ اَهْلُهَا ﴾ [ النساء : ۷۵ ] ’’اور تمھیں کیا ہے کہ تم اللہ کے راستے میں اور ان بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکال لے جس کے رہنے والے ظالم ہیں۔‘‘ 7۔ اِلَّا عَلٰى قَوْمٍۭ بَيْنَكُمْ وَ بَيْنَهُمْ مِّيْثَاقٌ: یعنی اگر تمھارا کفار سے کوئی معاہدہ ہو کہ آپس میں ایک دوسرے سے جنگ نہیں کریں گے تو تم معاہدے کو پس پشت ڈالتے ہوئے ان کی مدد نہیں کر سکتے، بلکہ ان مسلمانوں سے یہی کہا جائے گا کہ ’’دارالکفر‘‘ کو چھوڑ کر ’’دارالاسلام‘‘ میں چلے آئیں۔