ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَىٰ قَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ ۙ وَأَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
(اور) یہ بات اس لیے ہوئی کہ اللہ کا مقررہ قانون ہے کہ جو نعمت وہ کسی گروہ کو عطا فرماتا ہے اسے پھر کبھی نہیں بدلتا جب تک کہ کود اسی گروہ کے افراد پر اپنی حالت نہ بدل لیں اور اس لیے بھی اللہ (سب کی) سنتا اور (سب کچھ) جانتا ہے۔
1۔ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ : ’’جو ان کے دلوں میں ہے ‘‘ یعنی اعتقاد اور نیت جب تک نہ بدلے اللہ کی بخشی ہوئی نعمت چھینی نہیں جاتی۔ (موضح) مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو اپنی عطا کردہ نعمت سے اسی صورت میں محروم کرتا ہے جب وہ اپنے عقائد و اعمال اور اخلاق کو بدل کر اپنے متعلق ثابت کر دیتی ہے کہ وہ اس نعمت کی مستحق ہر گز نہیں ہے، مثلاً ایمان کے بجائے کفر، شکر کے بجائے نا شکری اور نیکی کے بجائے گناہ کرنے لگتی ہے، اس وقت اللہ تعالیٰ بھی اس سے اپنی عطا کردہ نعمت واپس لے لیتا ہے اور اسے مختلف قسم کے عذابوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ فرعون کی قوم اور اسی طرح قریش کو اللہ تعالیٰ نے بڑی شان و شوکت اور خوش حالی سے نوازا تھا، لیکن ان سے اپنی نعمتیں چھین لیں۔ اس زمانے میں مسلمان جو ساری دنیا میں ذلت، غلامی اور دوسروں کی حاشیہ برداری کی زندگی بسر کر رہے ہیں وہ بھی ان کی اپنی بد اعمالیوں کی سزا ہے، ورنہ ممکن ہی نہیں کہ ایک قوم کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتی ہو اور اس پر عامل ہو، پھر بھی دنیا میں ذلیل و خوار رہے۔ 2۔ وَ اَنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ: یعنی وہ سب کچھ سننے والا دیکھنے والا ہے، اس کے بندے جیسا طرز عمل اختیار کرتے ہیں ویسا ہی وہ انھیں بدلہ دیتا ہے۔