إِذْ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ غَرَّ هَٰؤُلَاءِ دِينُهُمْ ۗ وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اور (پھر دیکھو) جب ایسا ہوا تھا کہ منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں (ایمان کی کمزوری کا) روگ تھا کہنے لگے تھے ان مسلمانوں کو تو ان کے دین نے مغرور کردیا ہے، (یعنی یہ محض دین کا نشہ ہے جو انہیں مقابلے پر لے جارہا ہے ورنہ ان کے پلے ہے کیا؟ وہ نہیں جانتے تھے کہ مسلمانوں کا بھروسہ اللہ پر ہے) اور جس کسی نے اللہ پر بھروسہ کیا تو اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔
1۔ اِذْ يَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ: ’’جن کے دلوں میں بیماری‘‘ سے مراد نئے مسلمان ہیں، جن کے دلوں میں شک ختم ہو کر یقین کی پوری کیفیت پیدا نہیں ہوئی تھی۔ یہودی اور مدمقابل مشرکین بھی مراد ہو سکتے ہیں۔ 2۔ غَرَّ هٰؤُلَآءِ دِيْنُهُمْ: یعنی ان کے دینی جوش نے ان کو بالکل دیوانہ بنا دیا ہے، دیکھ رہے ہیں کہ ان کی تھوڑی سی تعداد ہے، کوئی سروسامان بھی نہیں ہے، حتیٰ کہ لڑنے کے لیے ایک کے سوا دوسرا گھوڑا بھی نہیں ہے، مگر چلے ہیں قریش کے مسلح اور عظیم الشان لشکر سے مقابلہ کرنے، پاگل ہی تو ہیں جو اپنی موت کو خود دعوت دے رہے ہیں۔ رسولوں اور ان کے ساتھیوں کو پاگل و دیوانہ کہنے کا یہ سلسلہ پہلے رسول سے لے کر ہمارے رسول تک چلا آیا ہے، کیونکہ کفار وہ بات سمجھ ہی نہیں سکتے جو ایمان سے دل میں پیدا ہوتی ہے۔ دیکھیے سورۂ ذاریات (۵۲، ۵۳) شاہ عبد القادر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’مسلمانوں کی دلیری دیکھ کر منافق طعن کرنے لگے، اللہ نے فرمایا، یہ غرور ( دھوکا کھانا) نہیں، توکل ہے۔‘‘ (موضح) 3۔ وَ مَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ....: اور جس کا بھروسا اس سب پر غالب اور کمال حکمت والے پر ہو اس کا دل یقیناً مضبوط ہو گا، اس لیے مسلمان کفار کے عظیم الشان لشکر کے ساتھ مقابلے کے لیے ہر طرح سے آمادہ اور پر عزم ہیں۔