وَمَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِندَ الْبَيْتِ إِلَّا مُكَاءً وَتَصْدِيَةً ۚ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُونَ
اور خانہ میں ان کی نماز اس کے سوا کیا تھی کہ سیٹیاں بجائیں اور تالیاں پیٹیں، تو دیکھو جیسے کچھ کفر کرتے رہے ہو، اب (اس کی پاداش میں) عذاب کا مزہ چکھ لو۔
1۔ وَ مَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِنْدَ الْبَيْتِ اِلَّا مُكَآءً وَّ تَصْدِيَةً:’’مُكَآءً ‘‘ ’’مَكَا يَمْكُوْ مَكْوًا وَ مُكَاءً‘‘ سیٹی بجانا اور ’’تَصْدِيَةً ‘‘ ’’صَدّٰي يُصَدِّيْ تَصْدِيَةً‘‘ (تفعیل) تالیاں بجانا۔ یعنی وہ لوگ کعبہ کے پاس عین حرم میں تالیاں پیٹتے اور سیٹیاں بجاتے اور اسے اپنی نماز، اللہ کی عبادت اور اس کے قرب کا ذریعہ قرار دیتے۔ افسوس کہ اب مسلمانوں نے بھی نمازیں اور قرآن چھوڑ کر عاشقانہ اشعار، سیٹیوں اور تالیوں کے مجموعے قوالی کو طریقت و معرفت کا نام دے کر روح کی غذا قرار دے رکھا ہے۔ بے شمار لوگ اسے تصوف کا اہم رکن قرار دے کر صرف سیٹیوں اور تالیوں ہی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ باقاعدہ مرشد کے اردگرد طواف اور رقص کرکے اسے اپنی نماز سمجھتے ہیں اور برملا کہتے ہیں نماز عابداں سجدہ سجود است نماز عاشقاں کلی وجود است ’’عابدوں کی نماز سجدہ سجود ہے مگر عاشقوں کی نماز (معشوق کا) پورا وجود ہی ہے۔‘‘ ایک صوفی نے تو صاف ہی اپنے مرشد کو قبلہ بھی قرار دے دیا ہے، چنانچہ وہ کہتا ہے ہر قوم راست را ہے، دینے و قبلہ گاہے من قبلہ راست کردم برسمت کج کلا ہے ’’ہر قوم کا ایک راستہ، ایک دین اور ایک قبلہ ہوتا ہے، مگر میں نے تو اپنا قبلہ ایک ٹیڑھی ٹوپی والے کی طرف سیدھا کر لیا ہے۔‘‘ اگر ان میں سے کوئی نماز پڑھتا بھی ہے تو ایسے طریقے سے جس طریقے سے پڑھنے والے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ دوبارہ نماز پڑھ، تو نے نماز پڑھی ہی نہیں۔ اللہ کی قسم! جب تک مسلمان تصور شیخ کا شرک اور صوفیوں کی عبادت کے یہ خود ساختہ طریقے اور موسیقی و رقص جیسی دل میں نفاق پیدا کرنے والی خرافات ترک نہیں کرتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ارکان اسلام و ایمان کی پابندی، خصوصاً جہاد نہیں کرتے کبھی دنیا میں سر نہیں اٹھا سکتے، ہمیشہ ذلت و خواری ہی ان پر مسلط رہے گی۔ 2۔ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ: کفر و شرک کے ارتکاب، سیٹیوں، تالیوں اور رقص کو نماز سمجھنے کا نتیجہ دنیا اور آخرت کے عذاب کی صورت میں چکھو۔