سورة الانفال - آیت 19

إِن تَسْتَفْتِحُوا فَقَدْ جَاءَكُمُ الْفَتْحُ ۖ وَإِن تَنتَهُوا فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَإِن تَعُودُوا نَعُدْ وَلَن تُغْنِيَ عَنكُمْ فِئَتُكُمْ شَيْئًا وَلَوْ كَثُرَتْ وَأَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(اے روسائے مکہ) اگر تم فتح مندی کے ظہور کے طلبگار تھے تو دیکھ لو فتح مندی تمہارے سامنے آگئی (یعنی جنگ بدر کے نتیجہ نے ہار جیب کا فیصلہ آشکارا کردیا) اور اگر (آئندہ لڑائی سے) باز آجاؤ تو تمہارے لیے بہتری کی بات یہی ہے۔ اور اگر پھر یہی چال چلے تو ہم بھی چال چلیں گے۔ اور یاد رکھو تمہارا جتھا تمہارے کچھ کام نہ آئے گا اگرچہ بہت سے آدمی اکٹھے کرلو، یقین کرو اللہ ایمان والوں کے ساتھ ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اِنْ تَسْتَفْتِحُوْا فَقَدْ جَآءَكُمُ الْفَتْحُ....: فتح کا معنی یہاں فیصلہ ہے، جیسا کہ کفار کہتے تھے : ﴿ مَتٰى هٰذَا الْفَتْحُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ﴾ [ السجدۃ : ۲۸ ] ’’یہ فیصلہ کب ہو گا، اگر تم سچے ہو؟‘‘ عبد اللہ بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں : ’’جب (بدر کے دن) لوگ ایک دوسرے کے مقابل ہوئے تو ابوجہل نے کہا، اے اللہ! ہم میں سے جو شخص زیادہ رشتوں کو توڑنے والا اور ہمارے سامنے غیر معروف بات پیش کرنے والا ہے اسے آج صبح ہلاک کر دے، تو یہ فیصلہ طلب کرنے والا ابوجہل تھا۔‘‘ [مستدرک حاکم : 2؍328، ح : ۳۲۶۴۔ أحمد :5؍431، ح : ۲۳۶۶۱، و صححہ شعیب أرنؤوط۔ السنن الکبریٰ للنسائی :6؍350، ح : ۱۱۲۰۱ ] ’’اگر تم فیصلہ چاہو‘‘ یہ خطاب کفار سے ہے، کیونکہ انھوں نے مکہ سے روانہ ہوتے وقت اور ابوجہل نے معرکۂ بدر سے پہلے یہ دعا کی تھی : ’’اے اللہ! ہم میں سے جو حق پر ہے اسے غالب اور جو باطل پر ہے اسے رسوا کر۔‘‘ گویا یہاں ’’ الْفَتْحُ ‘‘ کا معنی حکم اور فیصلہ ہے۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’مکی سورتوں میں ہر جگہ کافروں کا یہ کلام نقل فرمایا کہ ہر گھڑی کہتے ہیں : ﴿ مَتٰى هٰذَا الْفَتْحُ ﴾ یعنی کب فیصلہ ہو گا، سو اب فرمایا کہ یہ فیصلہ آ پہنچا۔‘‘ (موضح) وَ اِنْ تَعُوْدُوْا نَعُدْ....: یعنی اگر پھر مسلمانوں کی مخالفت اور ان سے جنگ کرو گے تو ہم پھر تمھارے ساتھ یہی سلوک کریں گے، اگرچہ تمھاری جماعت کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔ وَ اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُؤْمِنِيْنَ: ’’اَنَّ ‘‘ سے پہلے کئی الفاظ مقدر مانے جا سکتے ہیں، آسان یہ ہے کہ اس جملے کو ’’وَاعْلَمُوْا ‘‘ کا مفعول مان لیا جائے، یعنی جان لو کہ یقیناً اللہ مومنوں کے ساتھ ہے اور اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ ہو کوئی اس کا کیا بگاڑ سکتا ہے؟