وَاذْكُر رَّبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُن مِّنَ الْغَافِلِينَ
اور (اے پیغمبر) اپنے پروردگار کو صبح و شام یاد کیا کر، دل ہی دل میں عجز و نیاز کے ساتھ ڈرتے ہوئے اور زبان سے بھی آہستہ آہستہ بغیر پکارے، اور ایسا نہ کرنا کہ غافلوں میں سے ہوجاؤ۔
وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ فِيْ نَفْسِكَ....: ’’بِالْغُدُوِّ ‘‘ سے مراد فجرسے لے کر سورج طلوع ہونے تک کا وقت ہے اور ’’الْاٰصَالِ ‘‘ ’’اَصِيْلٌ‘‘ کی جمع ہے، جیسے ’’اَيْمَانٌ‘‘ ’’يَمِيْنٌ‘‘ کی جمع ہے، اس سے مراد عصر سے لے کر مغرب تک کا وقت ہے۔ ان اوقات میں دل کی حاضری کے ساتھ اللہ کا ذکر غفلت دور کرنے میں بے حد مفید ہے۔ بعض اوقات صبح و شام بول کر ہر وقت بھی مراد لیا جاتا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کی تاکید اور اس کے آداب بیان ہوئے ہیں : (1) ’’فِيْ نَفْسِكَ ‘‘ ذکر دل کے ساتھ کرے، صرف زبان چل رہی ہو اور دل حاضر نہ ہو تو خاص فائدہ نہیں۔ (2) ’’تَضَرُّعًا ‘‘ ذکر خوب عاجزی کے ساتھ اور گڑ گڑا کر کیا جائے۔ (3) ’’خِيْفَةً ‘‘ اللہ کا خوف دل پر طاری ہو اور اپنی عملی کوتاہی اور اللہ تعالیٰ کی گرفت کا ڈر ہو۔ (4) ’’دُوْنَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ ‘‘ اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں، ایک تو یہ کہ آواز کے بغیر ہو، کیونکہ یہ اخلاص سے قریب اور ریا سے دور ہے۔ دوسرا یہ کہ ذکر اور قرآن کی تلاوت نہ بالکل آہستہ ہو نہ بہت بلند آواز سے، بلکہ درمیانی آواز کے ساتھ پڑھا جائے۔ دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل (۱۱۰) اور جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ تہجد میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کو آواز کچھ بلند کرنے اور عمر رضی اللہ عنہ کو کچھ پست کرنے کا حکم دیا تھا۔ [أبوداؤد، التطوع، باب فی رفع الصوت....: ۱۳۲۹ ] دونوں صورتوں میں دل کی حاضری کے ساتھ زبان سے الفاظ کا ادا ہونا بھی ضروری ہے، صرف دل میں ذکر کو فکر کہتے ہیں، ذکر نہیں۔ اگر کوئی شخص نماز صرف دل سے پڑھتا جائے، زبان سے الفاظ ادا نہ کرے تو اس کی نماز نہیں ہو گی۔ (5) ’’وَ لَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِيْنَ ‘‘ ذکر ہر وقت جاری رہے، خصوصاً صبح و شام کے اوقات میں اور کبھی بھی اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل نہ ہو۔