أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا ۖ أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا ۖ أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا ۖ أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا ۗ قُلِ ادْعُوا شُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ كِيدُونِ فَلَا تُنظِرُونِ
کیا ان (پتھر کی مورتیوں) کے پاؤ ہیں جن سے چلتے ہوں؟ ہاتھ ہیں جن سے پکڑتے ہوں؟ آنکھیں ہیں جن سے دیکھتے ہوں؟ کان ہیں جن سے سنتے ہوں؟ (اے پیغمبر) ان لوگوں سے کہو (اگر تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریک تمہاری مدد کرسکتے ہیں تو) انہیں (جس قدر پکار سکتے ہو) پکار لو پھر ( میرے خلاف اپنی ساری) مخفی تدبیریں کر ڈالو اور مجھے (اپنے جانتے) ذرا بھی مہلت نہ دو، (پھر دیکھو نتیجہ کیا نکلتا ہے)۔
1۔ اَلَهُمْ اَرْجُلٌ يَّمْشُوْنَ بِهَا....: تو پھر تمھاری عقل کہاں چلی گئی کہ انھیں مدد کے لیے پکارتے ہو اور ان کے سامنے ماتھے رگڑتے ہو۔ اس آیت سے مقصد یہ ہے کہ بے شک تم نے ان بتوں کے ہاتھ، پاؤں، آنکھیں اور کان بنا رکھے ہیں، مگر زندہ انسان بہرحال ان بتوں سے بہتر ہے، کیونکہ ان چاروں اعضا کی وجہ سے وہ احساس بھی رکھتا ہے اور حرکت بھی کر سکتا ہے۔ رہے یہ بت، تو ان میں نہ شعور و احساس ہے نہ حس و حرکت۔ 2۔ قُلِ ادْعُوْا شُرَكَآءَكُمْ....: یعنی اپنا جو زور میرے خلاف لگا سکتے ہو لگا لو، جو خفیہ سے خفیہ تدبیر میرے خلاف کر سکتے ہو اس میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھو۔