هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا ۖ فَلَمَّا تَغَشَّاهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفًا فَمَرَّتْ بِهِ ۖ فَلَمَّا أَثْقَلَت دَّعَوَا اللَّهَ رَبَّهُمَا لَئِنْ آتَيْتَنَا صَالِحًا لَّنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ
وہی (تمہارا پروردگار) ہے جس نے اکیلی جان سے تمہیں پیدا کیا (یعنی تمہارے قبیلوں اور گروہوں کا مورث اعلی ایک فرد واحد تھا) اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنا دیا (یعنی مرد ہی کی نسل سے عورت بھی پیدا ہوتی ہے) تاکہ وہ اس کی رفاقت میں چین پائے، پھر جب ایسا ہوتا ہے کہ مرد عورت کی طرف ملتفت ہوا (١) تو عورت کو حمل رہ جاتا ہے۔ پہلے حمل کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے اور وہ وقت گزار دیتی ہے، پھر جب بوجھل ہوجاتی ہے (اور وہ وضع حمل کا وقت قریب آلگتا ہے) تو مرد اور عورت دونوں اللہ کے حضور دعا مانگتے ہیں کہ ان کا پرورش کرنے والا ہے : خدایا ! ہم دونوں تیرے شکر گزار ہوں گے اگر ہمیں ایک تندرست بچہ عطا فرما دے۔
1۔ هُوَ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ....: ایک جان، یعنی آدم علیہ السلام سے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ نساء کی پہلی آیت۔ 2۔ لِيَسْكُنَ اِلَيْهَا فَلَمَّا تَغَشّٰىهَا....: معلوم ہوا میاں بیوی کے تعلق کا اصل سکون و راحت ہے۔ دیکھیے سورۂ روم (۲۱) ’’ فَلَمَّا تَغَشّٰىهَا ‘‘ جس مقصد کے لیے قرآن مجید نے یہ الفاظ استعمال فرمائے ہیں حقیقت یہ ہے کہ ان سے بڑھ کر ادب، حیا، پردے اور پاکیزگی کے ساتھ وہ مطلب ادا کرنے والے اور لفظ ملنا مشکل ہیں۔ ’’صَالِحًا ‘‘ یعنی صحیح و سالم بچہ، جس میں کوئی جسمانی نقص نہ ہو۔ اس آیت کی صحیح تفسیر جسے حافظ ابن کثیر اور دوسرے محققین نے اختیار فرمایا ہے، وہ ہے جو حسن بصری رحمہ اللہ سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے کہ بے شک شروع میں بطور تمہید آدم و حوا علیھما السلام کا ذکر ہے، مگر اس کے بعد ’’فَلَمَّا تَغَشّٰىهَا ‘‘ سے سلسلۂ کلام ان کی اولاد میں سے مشرکین کی طرف منتقل ہو گیا ہے اور اس کی مثالیں قرآن مجید میں موجود ہیں جن میں فرد کے ذکر سے سلسلۂ کلام جنس کی طرف منتقل ہو گیا ہے۔ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ بعد میں ﴿ فَتَعٰلَى اللّٰهُ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ ﴾ وغیرہ یعنی تمام آیات میں آخر تک جمع کے الفاظ استعمال ہوئے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سے جنس آدم مراد ہے۔ آدم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے پیغمبر ہو کر شرک کا ارتکاب کیسے کر سکتے ہیں؟ بہت سے مفسرین نے ان سے مراد آدم اور حوا علیھما السلام لیے ہیں، ان کی بنیاد اس روایت پر ہے جو سمرہ رضی اللہ عنہ سے ترمذی اور حاکم وغیرہ میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جب حوا نے بچہ جنا تو ابلیس ان کے پاس آیا، ان کا کوئی لڑکا زندہ نہیں رہتا تھا۔ ابلیس کہنے لگا : ’’اس کا نام عبد الحارث رکھو تو یہ زندہ رہے گا۔‘‘ چنانچہ انھوں نے بچے کا نام عبد الحارث رکھا اور وہ زندہ بچ گیا۔ یہ سب کچھ شیطان کے اشارے سے تھا۔‘‘ لیکن حافظ ابن کثیر نے اس روایت کو ضعیف اور اسرائیلیات سے ماخوذ قرار دیا ہے اور اس کے ضعف کے تین اسباب بیان فرمائے ہیں، خصوصاً اس لیے بھی کہ اس میں شرک کی نسبت اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ نبی آدم علیہ السلام کی طرف کی گئی ہے۔ شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے بھی سلسلہ ضعیفہ (۳۴۲) میں اس روایت کو ضعیف کہا ہے۔ اس روایت کی سند میں موجود ایک راوی حسن بصری رحمہ اللہ نے وہ تفسیر فرمائی جو اوپر گزری اور صحیح سند کے ساتھ ان سے تفسیر طبری وغیرہ میں مروی ہے، اگر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس روایت کو صحیح سمجھتے تو خود اس کے خلاف ہر گز تفسیر نہ فرماتے۔ اس لیے وہی تفسیر درست ہے۔ ہمارے استاذ شیخ محمد عبدہ رحمہ اللہ ابن کثیر رحمہ اللہ وغیرہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اگر یہ سارا قصہ آدم و حوا علیھما السلام کے متعلق ہی تسلیم کر لیا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ’’جَعَلَا لَهٗ شُرَكَآءَ ‘‘ میں استفہام انکاری ہے، یعنی جب اللہ تعالیٰ نے انھیں تندرست بچہ عطا کیا تو کیا آدم وحوا نے شرک کیا تھا؟ جیسا کہ مشرکین عرب ان کی طرف شرک کی نسبت کرتے ہیں، یعنی نہیں۔ یہ تاویل بھی درست ہے، کیونکہ یہاں تک تثنیہ کی ضمیریں ہیں، آگے جمع کے صیغے کے ساتھ مشرکین پر رد ہے۔ 3۔ فَتَعٰلَى اللّٰهُ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ: اس سے مراد بالاتفاق کفار عرب ہیں، جیسا کہ بعد والی آیات سے ثابت ہو رہا ہے، یعنی جب اولاد کی امید ہوتی ہے تو مشرکین اللہ سے تندرست اولاد عطا کرنے کی دعا کرتے اور شکر گزار ہونے کا وعدہ کرتے ہیں، مگر جب ٹھیک ٹھاک تندرست اولاد عطا ہو جاتی ہے تو اسے غیر اللہ کی دین قرار دے دیتے ہیں، کوئی اسے عبد العزیٰ کہتا ہے، کوئی عبد المطلب، کوئی عبد ود اور کوئی عبد یغوث، یا کسی مردے کے نام کی نذر و نیاز دیتے ہیں، یا شکریہ ادا کرنے کے لیے بچے کو کسی قبر پر لے جا کر اس کا ماتھا وہاں ٹکاتے ہیں کہ ان کے بزرگوں کے طفیل یہ بچہ ملا ہے۔ یہ سب صورتیں اللہ کا شریک ٹھہرانے کی ہیں جو صرف مشرکین عرب ہی میں نہیں تھیں بلکہ مسلمان کہلانے والے بہت سے لوگوں میں اب بھی عام ہیں، چنانچہ وہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق اللہ کو سب سے پیارے دو نام عبد اللہ یا عبد الرحمن یا اس سے ملتے جلتے نام یا شرک سے پاک نام رکھنے کے بجائے نبی بخش، حسین بخش، پیراں دتہ، عبد النبی، عبد الرسول اور بندۂ علی وغیرہ نام رکھتے ہیں۔ پھر وہ کسی کو کسی آستانے کا فقیر بنا دیتے ہیں، کسی کو کسی قبر کا مجاور بنا دیتے ہیں۔ کوئی اپنا نام سگ دربار غوثیہ رکھ لیتا ہے، کوئی سگ رسول یا سگ مدینہ۔ [ إِنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ]