قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
(اے پیغمبر) تم کہہ دو میرا حال تو یہ ہے کہ کود اپنی جان کا نفع نقصان بھی اپنے قبضے میں نہیں رکھتا، وہی ہو کر رہتا ہے جو خدا چاہتا ہے، اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو ضرور ایسا کرتا کہ بہت سی منفعت بٹور لیتا اور (زندگی میں) کوئی گزند مجھے نہ پہنچتا۔ میں اس کے سوا کیا ہوں کہ ماننے والوں کے لیے خبردار کردینے والا اور بشارت دینے والا ہوں۔
1۔ قُلْ لَّاۤ اَمْلِكُ لِنَفْسِيْ نَفْعًا....: یعنی اللہ تعالیٰ کی مشیت سے جو کچھ ہونا ہے ہو رہا ہے، مجھ میں ذاتی طور پر یہ بھی قدرت و اختیار نہیں کہ میں اپنی جان سے کسی نقصان یا تکلیف کو روک سکوں، یا کچھ نفع حاصل کر سکوں۔ تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ اختیار نہیں تو پھر وہ کون ہو گا جسے اللہ تعالیٰ نے یہ اختیار عطا فرمایا ہے۔ دیکھیے سورۂ فرقان (۳) اور یونس (۱۰۶، ۱۰۷) بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لیے واقعی اختیار نہیں رکھتے، مگر دوسرے سب لوگوں کے لیے نفع و ضرر کا اختیار رکھتے ہیں۔ اس کے لیے دیکھیے سورۂ جن (۲۰ تا ۲۲)۔ 2۔ وَ لَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَيْبَ: یعنی نہ میں غیب دان ہی ہوں، اگر ایسا ہوتا تو کتنے ہی فائدے ہیں جنھیں میں پیشگی سمیٹ لیتا اور کتنے ہی نقصانات ہیں جن سے قبل از وقت آگاہ ہونے کی بنا پر میں بچ جاتا۔ یہاں لفظ ’’لَوْ ‘‘ (اگر) سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باوجود افضل المرسلین ہونے کے علم غیب نہیں رکھتے تھے، کیونکہ یہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کی صفت ہے۔ دیکھیے سورۂ نمل (۶۵) اس کے باوجود بعض نادان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب باور کرواتے ہیں، حالانکہ بعض جنگوں میں آپ کا چہرہ زخمی ہوا، دانت مبارک بھی شہید ہوا، چہرے میں خود کی کڑیاں چبھ گئیں، ہونٹ پھٹ گیا، گھوڑے سے گر کر زخمی ہوئے تو کتنے دن صاحبِ فراش رہے۔ عائشہ رضی اللہ عنھا پر بہتان لگا تو پورا ایک مہینا آپ پریشان رہے، ایک یہودی عورت نے کھانے میں زہر ملا دیا، جسے کھانے سے آپ کے بعض صحابہ شہید بھی ہو گئے، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس زہر کا اثر آخر تک محسوس کرتے رہے۔ یہ سب واقعات شاہد ہیں کہ ’’اگر میں غیب جانتا ہوتا تو مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔‘‘ اس مضمون کو تفصیل سے پڑھنے کے لیے تقویۃ الایمان شاہ اسماعیل رحمہ اللہ اور تلاش حق از ارشاد اللہ مان صاحب کا مطالعہ فرمائیں۔ 3۔ اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِيْرٌ وَّ بَشِيْرٌ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ: اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء اور اولیاء کو جو اللہ تعالیٰ نے سب لوگوں سے بڑا بنایا ہے، سو ان میں بڑائی یہی ہوتی ہے کہ وہ اللہ کی راہ بتاتے ہیں اور اس بات میں کچھ ان کی بڑائی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو عالم میں تصرف کی قدرت دے دی ہو کہ موت و حیات یا نفع و نقصان ان کے اختیار میں ہو، یا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو غیب دانی دے دی ہو کہ جس کے احوال جب چاہیں معلوم کر لیں۔ اس آیت سے شرک کی جڑ کٹ گئی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو تمام عالم کے سردار ہیں، اپنی جان کے نفع و نقصان کا اختیار نہ ہو، نہ غیب کی بات معلوم ہو تو کسی اور نبی یا ولی یا بزرگ یا فقیر یا جن یا فرشتے کو کیا قدرت ہے کہ کسی کو فائدہ یا نقصان پہنچائے، یا غیب کی کوئی بات بتائے، البتہ وحی کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ آپ کو جو بات بتا دیتا وہ آپ کو معلوم ہو جاتی اور آپ لوگوں کو اس کی خبر دے دیتے۔ (وحیدی)