أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا ۗ مَا بِصَاحِبِهِم مِّن جِنَّةٍ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِيرٌ مُّبِينٌ
کیا ان لوگوں نے غور نہیں کیا؟ ان کے رفیق کو (یعنی پیغمبر اسلام کو جو انہی میں پیدا ہوا اور جس کی زندگی کی ہر بات ان کے سامنے ہے) کچھ دیوانگی تو ہیں لگ گئی ہے (کہ خواہ مخواہ ایک بات کے پیچھے پڑ کر سب کو اپنا دشمن بنا لے) وہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ (انکار و بدعملی کی پاداش سے) کھلے طور پر خبردار کردینے والا ہے۔
اَوَ لَمْ يَتَفَكَّرُوْا مَا بِصَاحِبِهِمْ مِّنْ جِنَّةٍ....: اوپر کی آیات میں ان کی غفلت اور بے رخی پر تنبیہ تھی، اب یہاں سے نبوت پر ان کے شبہات کی تردید ہو رہی ہے۔ کفار قریش آپ کو مجنون (پاگل) قرار دیتے تھے، دیکھیے سورۂ حجر (۶) اور دخان (۱۳، ۱۴) اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس کے دو جواب دیے، ایک یہ کہ کبھی تم نے سوچا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی اور جگہ سے نہیں آئے، تمھارے ساتھی ہیں، تمھی میں رہتے ہیں، تم ان سے خوب واقف ہو، انھوں نے چالیس برس تم میں گزارے ہیں، کچھ غور تو کرو، کیا پاگل ایسے ہوتے ہیں؟ ’’صَاحِبُكُمْ ‘‘ (تمھارے ساتھی) کے لفظ میں یہی جواب دیا گیا ہے۔ دیکھیے سورۂ یونس (۱۶) دوسرا یہ کہ ان لوگوں نے کبھی یہ سوچا بھی ہے کہ جن باتوں کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیتے ہیں، مثلاً توحید، نماز، صدقہ، صلہ رحمی، پاک دامنی اور صدق وغیرہ ان میں سے کون سی چیز جنون ہے، یا آپ کے عادات و خصائل میں کون سی چیز ہے جسے جنون کہا جا سکے، آپ تو محض اللہ تعالیٰ اور اس کے عذاب سے کھلم کھلا ڈرانے والے ہیں۔ [ديكهيے سورهٔ سبا ۴۶]