وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكَ لَيَبْعَثَنَّ عَلَيْهِمْ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَن يَسُومُهُمْ سُوءَ الْعَذَابِ ۗ إِنَّ رَبَّكَ لَسَرِيعُ الْعِقَابِ ۖ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور (اے پیغمبر) جب ایسا ہوا تھا کہ تیرے پروردگار نے اس بات کا اعلان کردیا تھا (اگر بنی اسرائیل شرارت و بدعملی سے باز نہ آئے تو) وہ قیامت کے دن کے تک ان پر ایسے لوگوں کو مسلط کردے گا جو انہیں ذلیل کرنے والے عذاب میں مبتلا کریں گے، حقیقت یہ ہے کہ تیرا پروردگار (بدعملی کی) سزا دینے میں دیر کرنے والا نہیں اور ساتھ ہی بخشنے والا رحمت والا بھی ہے۔
وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكَ لَيَبْعَثَنَّ....: گزشتہ آیات میں یہود کی آسانی اور سختی کے ساتھ آزمائشوں اور ان کے بعض نیک و بد اعمال کا ذکر فرمایا، اب اس آیت میں بتایا کہ قیامت تک ان پر ایسے لوگ مسلط کیے جاتے رہیں گے جو انھیں بدترین عذاب چکھاتے رہیں گے۔ سورۂ آل عمران (۱۱۲) میں فرمایا کہ ان پر ذلت مسلط کر دی گئی مگر اللہ کی پناہ اور لوگوں کی پناہ کے ساتھ۔ دیکھیے آیت مذکورہ کی تفسیر۔ یہودیوں کی پوری تاریخ اس حقیقت کی زندہ شہادت ہے، وہ ہر زمانے میں جہاں بھی رہے دوسروں کے محکوم اور غلام بن کر رہے اور آئے دن ان پر ایسے حکمران مسلط ہوتے رہے جنھوں نے انھیں ظلم و ستم کا تختۂ مشق بنایا۔ دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل (۴ تا ۸) قریب زمانے میں ہٹلر نے ان سے جو سلوک کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، اگر کسی جگہ عارضی طور پر انھیں امن و امان نصیب ہوا بھی اور ان کی برائے نام حکومت قائم ہوئی بھی تو وہ اپنے بل بوتے پر نہیں بلکہ سراسر دوسروں کے سہارے پر۔