فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ أَنجَيْنَا الَّذِينَ يَنْهَوْنَ عَنِ السُّوءِ وَأَخَذْنَا الَّذِينَ ظَلَمُوا بِعَذَابٍ بَئِيسٍ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ
پھر جب ایسا ہوا کہ ان لوگوں نے وہ تمام نصیحتیں بھلا دیں جو انہیں کی گئی تھیں تو ہمارا مواخذہ نمودار ہوگیا، ہم نے ان لوگوں کو تو بچا لیا جو برائی سے روکتے تھے مگر شرارت کرنے والوں کو ایسے عذاب میں ڈالا کہ محرومی و نامرادی میں مبتلا کرنے والا عذاب تھا۔ بہ سبب ان نافرمانیوں کے جو وہ کیا کرتے تھے۔
1۔ فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ....: یعنی جب ہفتہ کی تعظیم کا حکم انھوں نے سرے سے بھلا ہی دیا اور حیلے سے بڑھ کر علانیہ نافرمانی شروع کر دی تو اللہ تعالیٰ نے برائی سے منع کرنے والوں کو عذاب سے بچا لیا اور ظلم کرنے والوں کو بہت سخت عذاب میں پکڑ لیا۔ اب بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ پہلے ان پر نافرمانی کی وجہ سے ایک عذاب بھیجا گیا، جیسا کہ یہاں ’’ بِعَذَابٍ بَىِٕيْسٍ‘‘ فرمایا ہے کہ شاید وہ باز آ جائیں۔ (دیکھیے سورۂ سجدہ : ۲۱) لیکن جب اس پر بھی باز نہ آئے تو اگلی آیت میں مذکور مسخ کی سزا دی گئی اور بعض نے فرمایا کہ ’’ بِعَذَابٍ بَىِٕيْسٍ‘‘ سے مراد یہی مسخ ہے، لیکن ﴿ وَ اَخَذْنَا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا ﴾ کے بعد دوبارہ ﴿ فَلَمَّا عَتَوْا عَنْ مَّا نُهُوْا عَنْهُ ﴾ سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلا عذاب تنبیہ کے لیے تھا، پھر بھی جب وہ متنبہ نہ ہوئے، بلکہ سرکشی اختیار کی تو ان سرکشوں کو بندر بنا دیا گیا۔ واللہ اعلم! 2۔ وَ اَخَذْنَا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا....: اللہ تعالیٰ نے برائی سے منع کرنے والوں کی نجات اور ظلم کرنے والوں کو سخت عذاب، مثلاً قحط یا بیماری وغیرہ میں پکڑنے کا ذکر کیا ہے اور اس سے اگلی آیت میں سرکشی کرنے والوں کی شکلیں بدل کر بندر بنا دینے کا ذکر فرمایا ہے۔ تیسرے گروہ کا واضح ذکر نہیں فرمایا کہ ان کا کیا بنا۔ اکثر مفسرین کا کہنا یہی ہے کہ صرف اس جرم کا مسلسل ارتکاب کرنے والے ہی عذاب میں گرفتار ہوئے، جیسا کہ ’’بِمَا كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ ‘‘ کے استمرار سے معلوم ہوتا ہے کہ باقی دونوں گروہ بچ گئے۔ بعض کا کہنا ہے کہ وہ بھی برائی سے منع نہ کرنے کی وجہ سے ہلاک ہونے والوں کے ساتھ ہلاک ہو گئے۔ بعض کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کے انجام سے خاموشی اختیار فرمائی تو ہمیں بھی خاموشی اختیار کرنی چاہیے۔ مگر حافظ ابن کثیر اور اکثر مفسرین نے ان کے بچ جانے ہی کو ترجیح دی ہے، کیونکہ یہ لوگ سرکشی اختیار کرنے والے ہر گز نہ تھے، بلکہ جیسا کہ اسی آیت کے حاشیہ( ۱) میں ذکر ہوا ہے، یہ لوگ اس برائی سے نفرت رکھنے والے تھے اور عین ممکن ہے کہ منع کرنے کے بعد تھک کر ان پر عذاب کے منتظر ہوں، مگر ان پر لازم تھا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جاری رکھتے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا : ’’کوئی بھی قوم جس میں اللہ کی نافرمانیوں پر عمل ہوتا ہو، پھر وہ اسے بدلنے کی طاقت رکھتے ہوں، پھر نہ بدلیں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنی طرف سے عذاب بھیج دے۔‘‘ [ أبو داؤد، الملاحم، باب الأمر والنھی : ۴۳۳۸۔ ترمذی : ۳۰۵۷، و قال الألبانی صحیح ] راجح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ پہلے ان پر ’’عَذَابٌ بَىِٕيْسٌ‘‘ آیا، جو قحط یا بیماری یا خوف وغیرہ کی شکل میں تھا، اس میں شکار کرنے والے اور اس پر خاموش رہنے والے دونوں گرفتار ہوئے، کیونکہ برائی پر خاموش رہنا بھی ایک قسم کا ظلم تھا مگر جب بندر بنانے کا عذاب آیا تو یہ صرف ان پر آیا جو اس سرکشی کے مرتکب تھے اور اب کھلم کھلا بلاجھجک یہ کام کر رہے تھے۔ [ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ وَ عِلْمُہُ أَتَمُّ] 3۔ قرآن کے الفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ ان کی شکلیں بدل کر بندر کی بنا دی گئیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان میں صرف بندروں کی خصلتیں پیدا کر دی گئیں، مگر اس تاویل کی ضرورت تب ہے جب اللہ تعالیٰ کا انھیں بندر بنانا ممکن نہ ہو، یا پہلے ان کی خصلتیں انسانوں والی ہوں اور اب بندروں والی بنا دی گئی ہوں، جبکہ ان کے تمام حیلے ایسے تھے جو سلیم الفطرت انسان کر ہی نہیں سکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ جب کسی شے کو مسخ کرے (شکل بدل دے) تو نہ اس کے پیچھے رہنے والا کوئی ہوتا ہے اور نہ اس کی نسل ہوتی ہے۔‘‘ [ المعجم الکبیر : ۷۴۶، و صححہ الألبانی فی صحیح الجامع : ۵۶۷۳، عن أم سلمۃ رضی اللّٰہ عنھا۔ مسلم : ۲۶۶۳ ]