وَلَمَّا سُقِطَ فِي أَيْدِيهِمْ وَرَأَوْا أَنَّهُمْ قَدْ ضَلُّوا قَالُوا لَئِن لَّمْ يَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَيَغْفِرْ لَنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ
پھر جب ایسا ہوا کہ (افسوس و ندامت سے) ہاتھ ملنے لگے اور انہوں نے دیکھ لیا کہ راہ (حق) سے قطعا بھٹک گئے ہیں تو کہنے لگے اگر ہمارے پروردگار نے ہم پر رحم نہیں کیا اور نہ بخشا تو ہمارے لیے تباہی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
وَ لَمَّا سُقِطَ فِيْ اَيْدِيْهِمْ: یہ عربی زبان کا محاورہ ہے، جس کا معنی ہے کہ جب وہ نادم اور پشیمان ہوئے۔ رہی یہ بات کہ یہ محاورہ کیسے بنا تو ظاہر ہے کہ یہاں ان کے ہاتھوں میں گر پڑنے والی چیز مجہول رکھی گئی ہے، گویا ندامت کی وجہ سے ان کے منہ ہاتھوں میں آ گرے اور اس پشیمانی میں انھوں نے اپنے چہرے ہاتھوں میں چھپا لیے۔ یا انسان جب پشیمان اور نادم ہوتا ہے تو وہ دانتوں سے ہاتھ کاٹتا ہے، گویا اس کا منہ اور دانت ہاتھوں میں آ گرتے ہیں، یعنی بے اختیار پہنچ جاتے ہیں۔ یعنی جب انھیں کچھ ہارون علیہ السلام کے سمجھانے سے اور کچھ موسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری پر ان کے غیظ و غضب سے احساس ہوا کہ ہم کتنا بڑا غلط کام کر بیٹھے ہیں تو انھوں نے یہ دعا کی۔ سورۂ بقرہ (۵۴) کی تفسیر میں ان کی توبہ، ایک دوسرے کو قتل کرنے اور توبہ کی قبولیت کا ذکر گزر چکا ہے۔