وَإِذْ أَنجَيْنَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ ۖ يُقَتِّلُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ ۚ وَفِي ذَٰلِكُم بَلَاءٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ
اور (خدا فرماتا ہے، اے بنی اسرائیل) وہ وقت یاد کرو جب ہم نے تمہیں فرعون کی قوم سے نجات دلائی۔ وہ تمہیں سخت عذابوں میں مبتلا کرتے تھے، تمہارے بیٹوں کو قتل کر ڈالتے اور تمہاری عورتوں کو (اپنی چاکری کے لیے) زندہ چھوڑ دیتے، اس صورت حال میں تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہاری بڑی ہی آزمائش تھی۔
وَ اِذْ اَنْجَيْنٰكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ....: چوتھی یہ کہ آل فرعون سے نجات کو یاد کرو کہ اکیلے فرعون ہی نے نہیں بلکہ پوری قوم نے تمھیں غلام بنا رکھا تھا۔ ’’بَلَآءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ ‘‘ آزمائش انعام اور مصیبت دونوں طرح ہوتی ہے۔ اس واقعہ میں تم پر مصیبت کا ابتلا بھی آیا اور انعام کا بھی۔ تمھارے لڑکوں کا ذبح کرنا اور عورتوں کو زندہ رکھ کر لونڈیاں بنا کر ان سے کام لینا اور اپنی خواہش نفس پوری کرنا اور مردوں کو ختم کرنے کے ذریعے سے بنی اسرائیل کی نسل ختم کرنے کا منصوبہ بنانا مصیبت تھا اور اس سے نجات انعام۔ مزید دیکھیے سورۂ بقرہ ( ۴۹)۔ ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب حنین کی طرف نکلے تو مشرکین کے ایک درخت کے پاس سے گزرے، جسے ذات انواط کہا جاتا تھا، وہ لوگ اس پر اپنے ہتھیار لٹکاتے تھے۔ تو (نو مسلم) لوگ کہنے لگے : ’’یا رسول اللہ! آپ ہمارے لیے بھی ایک ذات انواط مقرر فرما دیں، جیسا کہ ان کے لیے ذات انواط ہے۔‘‘ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’سبحان اللہ! یہ تو اسی طرح کی بات ہے جو موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے کہی تھی کہ ہمارے لیے کوئی معبود بنا دے جس طرح ان (مشرکین) کے معبود ہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں پر سوار ہو جاؤ گے۔‘‘ [ترمذی، الفتن، باب ما جاء لترکبن سنن....: ۲۱۸۰ ] ترمذی اور البانی (رحمہما اللہ) دونوں نے اسے صحیح کہا ہے۔