سورة البقرة - آیت 3

الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(متقی انسان وہ ہیں) جو غیب (کی حقیقتوں) پر ایمان رکھتے ہیں نماز قائم کرتے ہیں اور ہم نے جو کچھ روزی انہیں دے رکھی ہے اسے (نیکی کی راہ میں) خرچ کرتے ہیں

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ: ”بِالْغَيْبِ“سے مراد وہ حقائق ہیں جو انسان کے حواس اور عقل کی رسائی سے باہر ہیں ۔ حدیث جبریل، جس کے راوی امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ ہیں ، اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کی تعریف یہ بیان فرمائی کہ آدمی اللہ تعالیٰ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، یوم آخرت اور اچھی یا بری تقدیر پر ایمان لائے۔ [ مسلم : ۸ ] یہ سب چیزیں غیب میں شامل ہیں ، کیونکہ انھیں دیکھے بغیر ان پر ایمان رکھا جاتا ہے۔ قرآن کی ہدایت سے فیض یاب ہونے والے وہی متقی لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان پر اعتبار کرتے ہوئے غیب پر ایمان رکھتے ہیں ، اپنے مشاہدے یا اپنی عقل سے معلوم ہونے کا مطالبہ نہیں کرتے، غیب کے منکروں کو قرآن سے کچھ حاصل نہیں ، جیسے اندھے کو چراغ کا کوئی فائدہ نہیں ۔ وَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ: قرآن مجید سے ہدایت حاصل کرنے کے لیے غیب پر ایمان کے ساتھ عملاً اطاعت بھی ضروری ہے، اس کی پہلی اور دائمی علامت بلاناغہ نماز ہے، پانچ وقت اذان سن کر نماز پڑھنے یا نہ پڑھنے سے اطاعت کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ہو جاتا ہے، پھر جو شخص اطاعت پر تیار ہی نہ ہو اسے ہدایت کیسے ہو؟ نماز قائم کرنے سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی طرح نماز ادا کرنا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’نماز اس طرح پڑھو جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔‘‘ [ بخاری، الأذان، باب من قال لیؤذن فی السفر.... : ۶۲۸، عن مالک بن الحویرث رضی اللّٰہ عنہ ] ۔ ارکان نماز کو اعتدال اور اطمینان کے ساتھ ادا کرنا ضروری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اطمینان سے ارکان نماز ادا نہ کرنے والے آدمی سے فرمایا تھا : ’’دوبارہ نماز پڑھو، کیونکہ تم نے نماز پڑھی ہی نہیں ۔‘‘ [ بخاری، الأذان، باب وجوب القراءۃ .... : ۷۵۷، عن أبی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ] ۔ جماعت کا اہتمام بھی نماز قائم کرنے میں شامل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’کوئی تین آدمی نہیں جو کسی بستی میں ہوں یا بادیہ میں ، جن میں نماز قائم نہ کی جاتی ہو مگر شیطان ان پر غالب آ چکا ہوتا ہے۔‘‘ [ أبو داؤد، کتاب الصلوۃ، باب التشدید فی ترک الصلوۃ : ۵۴۷، عن أبی الدرداء رضی اللّٰہ عنہ ] ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اپنی صفیں درست کرو، بلاشبہ صفیں درست کرنا بھی اقامتِ صلاۃ کا حصہ ہے۔‘‘ [ بخاری، الأذان، باب إقامۃ الصف.... : ۷۲۳، عن أنس رضی اللّٰہ عنہ ] اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نماز میں کندھے سے کندھا اور قدم سے قدم خوب اچھی طرح ملاتے تھے، انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں صفیں درست کرنے کا حکم دیتے تو ہم اس طرح کھڑے ہوتے تھے کہ ہر نمازی اپنا پاؤں اور کندھا ساتھ والے کے پاؤں اور کندھے کے ساتھ چپکا دیتا تھا۔‘‘ [ بخاری، الأذان، باب إلزاق المنکب .... : ۷۲۵] وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ: ’’جو کچھ ہم نے انھیں دیا‘‘ اس سے مراد ہر نعمت ہے، مثلاً مال و اولاد، علم و عقل، قوت و صحت، عزت و وقار وغیرہ۔’’ ہر نعمت میں سے کچھ نہ کچھ خرچ کرتے ہیں ‘‘ ساری نعمت خرچ کرنے کا مطالبہ ہی نہیں ۔ دیکھیے سورۂ محمد (۳۶ تا ۳۸) اس میں ذاتی ملکیت کے منکروں ( کمیونسٹوں ) کا رد ہے، کیونکہ ملکیت نہ ہو گی تو خرچ کس سے کرے گا۔ خرچ میں فرض و نفل ہر قسم کا خرچ ہے اور جو شخص اللہ کے لیے اس کی عطا کردہ نعمت خرچ کرنے پر تیار ہی نہیں وہ قرآن سے رہنمائی حاصل نہیں کر سکتا۔