قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ اسْتَعِينُوا بِاللَّهِ وَاصْبِرُوا ۖ إِنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ يُورِثُهَا مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ
تب موسیٰ نے اپنی قوم کو (وعظ کرتے ہوئے) کہا، خدا سے مدد مانگو اور (اس راہ میں) جمے رہو، بلا شبہ زمین (کی پادشاہت صرف) خدا ہی کے لیے ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے اور انجام کار انہی کے لیے ہے جو متقی ہوں گے۔
1۔ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهِ اسْتَعِيْنُوْا بِاللّٰهِ....: فرعون کی دھمکیوں پر موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو تسلی دینا ضروری سمجھا، چنانچہ انھیں اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے اور صبر کرنے کی تلقین فرمائی، جس پر انھوں نے ظالموں سے پناہ کی وہ دعا لازم کر لی جو اللہ تعالیٰ نے سورۂ یونس میں ذکر فرمائی ہے : ﴿ رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ () وَ نَجِّنَا بِرَحْمَتِكَ مِنَ الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ﴾ [ یونس : ۸۵، ۸۶ ] موسیٰ علیہ السلام نے انھیں تسلی دیتے ہوئے یہ خوش خبری بھی سنائی کہ آج اگر مصر پر فرعون حکمران ہے تو کل اللہ تعالیٰ تمھیں اس کی سرزمین کا وارث، یعنی حکمران بنا سکتا ہے۔ 2۔ وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ: ’’عَاقِبَةٌ ‘‘ کا لفظی معنی تو انجام ہے جو اچھا بھی ہو سکتا ہے اور برا بھی، جیسا کہ فرمایا : ﴿ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظّٰلِمِيْنَ ﴾ [ القصص : ۴۰ ] ’’سو دیکھو ظالموں کا انجام کیسا تھا۔‘‘ مگر جب اس پر ’’الف لام‘‘ آ جائے تو اس کا معنی اچھا انجام ہی ہوتا ہے۔