تِلْكَ الْقُرَىٰ نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنبَائِهَا ۚ وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا بِمَا كَذَّبُوا مِن قَبْلُ ۚ كَذَٰلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِ الْكَافِرِينَ
(اے پیغمبر) یہ ہیں (دنیا کی پرانی) آبادیاں جن کے حالات ہم تمہیں سناتے ہیں، ان سب میں ان کے پیغمبر (سچائی کی) روشن دلیلوں کے ساتھ آئے مگر ان کے بسنے والے ایسے نہ تھے کہ جو بات پہلے جھٹلا چکے تھے اسے (سچائی کی نشانیاں دیکھ کر) مان لیں، سو دیکھو اس طرح خدا ان لوگوں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے جو (ہٹ دھرمی سے) انکار کرتے ہیں۔
1۔ تِلْكَ الْقُرٰى....: یہاں ’’ الْقُرٰى ‘‘ سے مراد گزشتہ پانچ اقوام (قوم نوح، عاد، ثمود، قوم لوط اور قوم شعیب) کی بستیاں ہیں۔ آپ کو ان کے کچھ حالات سنانے کا مقصد یہ ہے کہ کفار مکہ جو ان بستیوں میں رہنے والوں کی طرح آپ کی مخالفت کر رہے ہیں، عبرت حاصل کریں۔ 2۔ فَمَا كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْا بِمَا كَذَّبُوْا مِنْ قَبْلُ: یعنی ان کے ایمان نہ لانے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ان کے رسولوں کے پاس اپنے سچا ہونے کے دلائل نہیں تھے، یا وہ دلائل اتنے واضح اور روشن نہیں تھے کہ قائل کر سکیں، بلکہ اس کا سبب ان کی قوم کا پہلے سے طے کر لینا تھا کہ ہم نے ماننا ہی نہیں۔ اب پہلے جھٹلا دینے کے بعد وہ ایمان لے آتے تو ان کی جھوٹی عزت نفس پر حرف آتا تھا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَ اِذَا قِيْلَ لَهُ اتَّقِ اللّٰهَ اَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْاِثْمِ فَحَسْبُهٗ جَهَنَّمُ وَ لَبِئْسَ الْمِهَادُ ﴾ [ البقرۃ : ۲۰۶ ] ’’اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈر تو اس کی عزت اسے گناہ میں پکڑے رکھتی ہے، سو اسے جہنم ہی کافی ہے اور یقیناً وہ برا ٹھکانا ہے۔‘‘ یہی گناہ (یعنی دلائل دیکھنے کے باوجود پہلے ہی جھٹلا دینا اور اس پر اصرار کرنا) ان کے دلوں پر مہر کا باعث بن گیا۔ دیکھیے سورۂ انعام (۱۰۹، ۱۱۰)۔ 3۔ كَذٰلِكَ يَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِ الْكٰفِرِيْنَ: یعنی جس طرح پہلی امتوں کی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے ان کے دلوں کی صلاحیتیں سلب کر لی گئی تھیں اور انھیں ایمان نصیب نہیں ہوا تھا اسی طرح ان کے دل بھی مسخ ہو چکے ہیں اور ان میں ایمان کی صلاحیت باقی نہیں رہی۔