وَمَا أَرْسَلْنَا فِي قَرْيَةٍ مِّن نَّبِيٍّ إِلَّا أَخَذْنَا أَهْلَهَا بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُونَ
اور ہم نے جب کبھی کسی بستی میں کوئی نبی بھیجا تو ہمیشہ ایسا کیا کہ اس کے باشندوں کو سختیوں اور نقصانوں میں مبتلا کردیا کہ (سرکشی سے باز آئیں اور) عاجزی و نیاز مندی کریں۔
1۔ وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا فِيْ قَرْيَةٍ مِّنْ نَّبِيٍّ....: اس سے پہلے بعض انبیاء، نوح، ہود، صالح، لوط اور شعیب علیھم السلام کے اپنی اقوام کے ساتھ گزرے ہوئے چند واقعات کے ذکر کے بعد اور آگے موسیٰ علیہ السلام کے فرعون اور بنی اسرائیل کے ساتھ پیش آنے والے مفصل واقعات سے پہلے درمیان میں مختصر طور پر تمام انبیاء اور ان کی اقوام کا ذکر فرمایا۔ مقصود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دینا اور کفار کو خبردار کرنا ہے۔ 2۔ بِالْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ: ’’بِالْبَاْسَآءِ ‘‘ سے مراد اموال میں پہنچنے والی مصیبت، مثلاً فقر و فاقہ اور قحط وغیرہ اور ’’الضَّرَّآءِ ‘‘ سے مراد انسانی بدن کو نقصان پہنچانے والی اشیاء، مثلاً بیماری، مصائب اور جنگ وغیرہ۔ 3۔ لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُوْنَ: یعنی جب بھی ہم نے کسی بستی کی طرف کوئی نبی بھیجا اور وہ اس پر ایمان نہ لائے تو ہم نے ان کی نصیحت کے لیے بڑے عذاب سے پہلے کم تر عذاب بھیجے جو جنگ، تنگ دستی، قحط یا بیماری اور دوسرے مصائب کی صورت میں تھے۔ مقصد یہ تھا کہ وہ اپنی شامتِ اعمال سے آگاہ ہو کر ہمارے سامنے عجز کا اظہار کریں اور سیدھی راہ پر آ جائیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَ لَنُذِيْقَنَّهُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰى دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ ﴾ [ السجدۃ : ۲۱] ’’اور یقیناً ہم انھیں قریب عذاب کا کچھ حصہ سب سے بڑے عذاب سے پہلے ضرور چکھائیں گے، تاکہ وہ پلٹ آئیں۔‘‘