وَإِلَىٰ مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ۗ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ قَدْ جَاءَتْكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ ۖ فَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
اور (اسی طرح) مدین (١) کی بستی میں شعیب بھیجا گیا کہ انہی کے بھائی بندوں میں سے تھا، اس نے کہا : بھائیو ! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، دیکھو تمہارے پروردگار کی طرف سے واضح دلیل تمہارے سامنے آچکی ہے، پس چاہیے کہ ماپ تول پورا پورا کیا کرو، لوگوں کو (خریدو فروخت میں) ان کی چیزیں کم نہ دو، ملک کی درستی کے بعد (کہ دعوت حق کے قیام سے ظہور میں آرہی ہے) اس میں خرابی نہ ڈالو، اگر تم ایمان رکھتے ہو تو یقین کرو اسی میں تمہارے لیے بہتر ہے۔
1۔ وَ اِلٰى مَدْيَنَ اَخَاهُمْ شُعَيْبًا: مدین کا علاقہ حجاز کے شمال مغرب اور فلسطین کے جنوب میں بحر احمر اور خلیج عقبہ کے کنارے پر واقع تھا اور آج بھی اس علاقے میں ایک جگہ اسی نام سے مشہور ہے۔ شعیب علیہ السلام کا نسب نامہ امام نووی رحمہ اللہ نے یوں بیان کیا ہے، شعیب بن میکائیل بن یشجر بن مدین بن ابراہیم۔ (المنار) مگر اس کے صحیح ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ شعیب علیہ السلام کو اہل مدین کا بھائی قرار دیا، کیونکہ وہ اس قوم سے تھے اور ان کا قبیلہ بہت زبردست تھا جس کی وجہ سے ان کے کفار آپ کو نقصان پہنچانے سے ڈرتے تھے، اس لیے انھوں نے کہا تھا : ﴿وَ لَوْ لَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنٰكَ﴾ [ہود : ۹۱ ] ’’اور اگر تیری برادری نہ ہوتی تو ہم ضرور تمھیں سنگسار کر دیتے۔‘‘ شعیب علیہ السلام ہی کو اصحاب الایکہ کی طرف بھیجا گیا، مگر وہاں انھیں ان کا بھائی نہیں کہا گیا، فرمایا : ﴿كَذَّبَ اَصْحٰبُ لْـَٔيْكَةِ الْمُرْسَلِيْنَ() اِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَيْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ﴾ [ الشعراء : ۱۷۶، ۱۷۷ ] ’’ایکہ والوں نے رسولوں کو جھٹلایا، جب ان سے شعیب نے کہا کیا تم ڈرتے نہیں ہو ؟‘‘ اب بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ دونوں ایک ہی قوم کے نام ہیں اور ان پر دو قسم کے عذاب آئے، ایک ’’عَذَابُ يَوْمِ الظُّلَّةِ ‘‘ ( شعراء : ۱۸۹) اور ایک ’’الرَّجْفَةُ ‘‘ (اعراف : ۹۱ ) اور بعض کا کہنا ہے کہ یہ دو الگ الگ قومیں تھیں، اصحاب مدین پر ’’الرَّجْفَةُ ‘‘ (زلزلے) کا عذاب آیا اور اصحاب ایکہ پر ’’يَوْمِ الظُّلَّةِ ‘‘ کا عذاب آیا۔ (واﷲ اعلم) 2۔ قَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ ....: مدین والوں کا سب سے بڑا جرم اﷲ کے ساتھ شرک تھا، شعیب علیہ السلام نے سب سے پہلے انھیں اس سے باز رہنے کی تاکید فرمائی اور ہر پیغمبر کی پہلی دعوت یہی تھی : ﴿وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْۤ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ ﴾ [ الأنبیاء : ۲۵ ] ’’اور ہم نے تجھ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی طرف یہ وحی کرتے تھے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، سو میری عبادت کرو۔‘‘ 3۔ قَدْ جَآءَتْكُمْ بَيِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ: یعنی میرے سچا ہونے کی واضح دلیل تم دیکھ چکے ہو، لہٰذا ضروری ہے کہ جو بات میں کہتا ہوں اسے صحیح سمجھو۔ رازی نے فرمایا کہ یہاں ’’ بَيِّنَةٌ ‘‘ (واضح دلیل) سے مراد معجزہ ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ہر نبی کو کوئی نہ کوئی ایسا معجزہ دے کر بھیجا گیا جسے دیکھ کر لوگ اس پر ایمان لائے اور مجھے جو ( معجزہ) دیا گیا وہ وحی (قرآن و سنت) ہے جو اﷲ تعالیٰ نے میری طرف فرمائی اور مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن میرے پیروکار سب سے زیادہ ہوں گے۔‘‘ [ بخاری، فضائل القرآن، باب کیف نزل الوحی و أول ما أنزل : ۴۹۸۱۔ مسلم: ۱۵۲، عن أبی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ] مگر شعیب علیہ السلام کے معجزے کا قرآن کریم میں ذکر نہیں۔ زمخشری لکھتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام کے پاس جو عصا یعنی لاٹھی تھی وہ شعیب علیہ السلام ہی نے انھیں عطا فرمائی تھی اور وہ دراصل شعیب علیہ السلام ہی کا معجزہ تھا۔ (کشاف) مگر موسیٰ علیہ السلام مدین کے جس بزرگ کے پاس ٹھہرے اور ان کے داماد بنے تھے، ان کے شعیب علیہ السلام ہونے کی کوئی دلیل نہیں، نہ ہی مدین کے کسی بزرگ کا ذکر کرنے پر بلا دلیل یہ سمجھ لینا درست ہے کہ وہ لازماً اﷲ کے رسول شعیب علیہ السلام ہی تھے۔ قرآن مجید میں نہ ہر پیغمبر کا نام مذکور ہے نہ ہر نبی کا معجزہ۔ اتنا ہی کافی ہے کہ یقیناً شعیب علیہ السلام کوئی معجزہ لے کر آئے تھے، زیادہ کریدنے سے کچھ حاصل نہیں۔ 4۔ فَاَوْفُوا الْكَيْلَ ....: اس سے معلوم ہوا کہ اس قوم میں شرک کے ساتھ دوسری خرابی ماپ تول میں لیتے وقت زیادتی اور دیتے وقت کمی تھی، اگر کوئی ان کی اس زیادتی کے خلاف احتجاج کرتا تو مل کر اس کی بے عزتی کرتے اور اسے مارتے پیٹتے، جیسا کہ آج کل بھی عموماً ریڑھیوں والے ایسے موقع پر گاہک کے خلاف ایکا کر لیتے ہیں، اس لیے شعیب علیہ السلام نے انھیں سمجھایا کہ ماپ تول ہر حال میں پورا کرو اور انبیاء اور صالحین کی محنت سے دنیا میں جو اصلاح ہوئی ہے اس کے بعد شرک اور بد دیانتی اور ان کے ساتھ پیدا ہونے والی برائیوں کے ذریعے سے اس میں فساد مت پھیلاؤ، کیونکہ ان دونوں سے اﷲ تعالیٰ کے حقوق بھی تلف ہوتے ہیں اور لوگوں کے بھی۔ 5۔ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ: یعنی اگر تم مجھ پر ایمان لا کر شرک اور بد دیانتی ترک کرو تو یہ تمھارے لیے بہتر ہے، کیونکہ کافر رہتے ہوئے یہ چیزیں چھوڑ بھی دو تو قیامت کے دن اس کا کچھ فائدہ نہیں۔