سورة الاعراف - آیت 81

إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّن دُونِ النِّسَاءِ ۚ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

تم عورتوں کو چھوڑ کر نفسانی خواہش سے مردوں پر مائل ہوتے ہو، یقینا تم ایک ایسی قوم ہوگئے ہو جو (اپنی نفس پرستیوں میں) بالکل چھوٹ ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

1۔ اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ: چھوٹے یا بے ریش لڑکوں کے بجائے مردوں کا لفظ ان کے فعل کی قباحت کے مزید اظہار کے لیے استعمال کیا ہے۔ فرمایا کہ یہ فعل بد تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا، جیسا کہ اس سے پہلی آیت میں ہے : ﴿مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ ﴾ یعنی تم دوہرے مجرم ہو، ایک اس فعل بد کی وجہ سے، دوسرے اس فعل بد کا آغاز کرنے کی وجہ سے۔ اب قیامت تک اس جرم کے ہر مرتکب کا گناہ اس کے ساتھ ساتھ قوم لوط کی گردن پر بھی ہوتا ہے۔ شَهْوَةً مِّنْ دُوْنِ النِّسَآءِ: یہ تیسرا جرم ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے تمھاری خواہش نفس پوری کرنے کے لیے جو بیویاں بنائی ہیں انھیں چھوڑ کر مردوں سے خواہش نفس پوری کرتے ہو، یہ تمھاری فطرت مسخ ہونے کی دلیل ہے، پھر بیویوں سے حاجت پوری کرنے میں خواہش نفس پوری کرنے کے ساتھ بہت سی حکمتیں وابستہ ہیں، اولاد کی طلب، گھر کی رونق، دلی سکون، میاں بیوی کی باہمی دوستی کے ساتھ ایک دوسرے پر رحم اور شفقت۔ دیکھیے سورۂ روم(۲۱)۔ جبکہ تمھارا مردوں کے پاس جانا صرف خواہش نفس پوری کرنے کے لیے ہے جو نہایت کمینگی کی بات ہے۔ مِنْ دُوْنِ النِّسَآءِ: سورۂ شعراء میں فرمایا : ﴿وَ تَذَرُوْنَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْ١ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ عٰدُوْنَ﴾ [الشعراء : ۱۶۶ ] ’’اور انھیں چھوڑ دیتے ہو جو تمھارے رب نے تمھارے لیے تمھاری بیویاں پیدا کی ہیں، بلکہ تم حد سے گزرنے والے لوگ ہو۔‘‘ یعنی تم نے اس خبیث فعل کی وجہ سے بیویوں کو چھوڑ رکھا ہے، تم اپنے آپ پر بھی زیادتی کر رہے ہو اور ان مردوں پر بھی جن سے یہ فعل کرتے ہو اور ان عورتوں پر بھی جو تمھاری بیویاں ہیں۔ ذرا غور کرو کہ اس عمل کا نتیجہ تمھاری بیویوں پر کیا مرتب ہو گا؟ ان کی کچھ اور زیادتیوں کا ذکر سورۂ عنکبوت (۲۹) میں بھی کیا گیا ہے۔ اس وقت امریکہ اور یورپ کی اقوام نے ہم جنس پرستی کو جائز قرار دے کر مرد کی مرد اور عورت کی عورت کے ساتھ شادی کو قانونی تحفظ دے رکھا ہے، اب ان کی کوشش یہ ہے کہ مسلم معاشرے میں بھی اس فعل کو جرم نہ سمجھا جائے اور اس کے لیے وہ اپنے تمام وسائل استعمال کر رہے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ مسلمانوں کو حق پر قائم رہنے کی اور جہاد فی سبیل اﷲ کے ذریعے سے کفار کی اﷲ تعالیٰ سے علانیہ بغاوت کو کچلنے کی توفیق عطا فرمائے، کیونکہ اب اﷲ تعالیٰ کا قانون آسمانی عذاب کے بجائے مسلمانوں کے ہاتھوں سزا دینا ہے، فرمایا : ﴿قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ ﴾ [ التوبۃ : ۱۴] ’’ان سے لڑو، اﷲ انھیں تمھارے ہاتھوں سے عذاب دے گا۔‘‘