سورة البقرة - آیت 96

وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَىٰ حَيَاةٍ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا ۚ يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذَابِ أَن يُعَمَّرَ ۗ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور پھر اتنا ہی نہیں بلکہ تم دیکھو گے، زندگی کی سب سے زیادہ حرص رکھنے والے یہی لوگ ہیں۔ مشرکوں سے بھی زیادہ (ان مدعیان توحید کے دلوں میں حیات فانی کا عشق ہے) ان میں ایک ایک آدمی کا دل یہ حسرت رکھتا ہے کہ کاش ایک ہزار برس تک توحید کے دلوں میں حیات فانی کا عشق ہے) ان میں سے ایک ایک آدمی کا دل یہ حسرت رکھتا ہے کہ کاش ایک ہزار برس تک تو جیے ! حالانکہ عمر کی درازی انہیں عذاب آخرت سے نجات نہیں دلا دے گی اور جو کچھ کررہے ہیں، اللہ کی نظر سے چھپا ہوا نہیں ہے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

عَلٰى حَيٰوةٍ: اس پر تنوین تنکیر کی ہے، اس لیے ترجمہ ’’کسی بھی طرح زندہ رہنے پر‘‘ کیا گیا ہے، یعنی آپ یہود کو زندہ رہنے پر سب لوگوں سے زیادہ حریص پائیں گے، خواہ انھیں کسی بھی طرح زندہ رہنا پڑے، غلام بن کر یا عزت و آبرو کی بربادی کے ساتھ۔ مشرکین بھی زندہ رہنے کے بہت خواہش مند ہیں ، کیونکہ ان کے سامنے صرف دنیا ہی کی لذتیں ہیں ، آخرت پر ان کا یقین نہیں ، آخرت سے متعلق انھیں نہ کچھ خوف ہے نہ امید، مگر یہودی زندہ رہنے پر ان سے بھی زیادہ حریص ہیں ، کیونکہ مشرکین مرنے کے بعد زندہ ہونے کا عقیدہ ہی نہیں رکھتے، اس لیے وہ موت سے اتنا نہیں ڈرتے جتنا یہودی ڈرتے ہیں ، جنھیں خوب علم ہے کہ نبی آخر الزماں کو جاننے پہچاننے کے باوجود ان کے ساتھ کفر کے نتیجے میں انھیں کیا رسوائی اٹھانا پڑے گی۔ اس لیے ان کا ہر شخص ہزار برس زندہ رہنے کی خواہش رکھتا ہے، خواہ کیسی ہی ذلیل زندگی ہو، کیونکہ آخرت کے عذاب سے تو بہرحال وہ بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کے کسی شخص کو لمبی عمر مل بھی جائے تو وہ اسے عذاب سے بچانے والی ہرگزنہیں ۔