فَأَنجَيْنَاهُ وَالَّذِينَ مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَقَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۖ وَمَا كَانُوا مُؤْمِنِينَ
پھر ایسا ہوا کہ ہم نے ہود کو اور اس کے ساتھیوں کو اپنی رحمت سے بچا لیا اور جنہوں نے ہماری نشانیاں جھٹلائی تھیں ان کی بیخ و بنیاد تک اکھاڑ دی۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ کبھی ایمان لانے والے نہ تھے۔
وَ قَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا....: اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر ان کے تباہ کیے جانے کی کیفیت تفصیل سے بیان فرمائی ہے، مثلاً سورۂ قمر (۱۸تا۲۰)، سورۂ ذاریات (42،41) اور سورۂ حاقہ (۶تا۸) میں مذکور ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ان پر طوفان خیز آندھی چلائی جو مسلسل سات راتیں اور آٹھ دن چلتی رہی، وہ آندھی اس قدر تند و تیز تھی کہ جس چیز پر سے گزرتی اسے چورا کر ڈالتی، حتیٰ کہ اس نے انھیں پٹخ پٹخ کر ہلاک کر ڈالا، ان کی لاشیں اس طرح دکھائی دیتیں جیسے کھجور کے کھوکھلے تنے ہیں۔ قرآن نے یہاں اور دوسرے مقامات پر بھی تصریح فرمائی ہے کہ عاد اولیٰ کا نام و نشان تک باقی نہ چھوڑا، فرمایا : ﴿فَهَلْ تَرٰى لَهُمْ مِّنْۢ بَاقِيَةٍ ﴾ [ الحاقۃ : ۸ ] ’’تو کیا تو ان میں سے کوئی بھی باقی رہنے والا دیکھتا ہے۔‘‘ عرب مؤرخین نے بھی بالاتفاق ان کو عرب بائدہ (ہلاک ہو جانے والوں) میں شمار کیا ہے۔ صرف ہود علیہ السلام اور ان کے متبعین اس عذاب سے محفوظ رہے اور بقول بعض ان کی نسل ’’عادِ ثانیہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ بعض آثارِ قدیمہ سے ان کے متعلق معلومات بھی ملتی ہیں۔