قُلْ إِن كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْآخِرَةُ عِندَ اللَّهِ خَالِصَةً مِّن دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
یہ لوگ کہتے ہیں آخرت کی نجات صرف اسی کے حصے میں آئی ہے) تم ان سے کہو اگر آخرت کا گھر خدا کے نزدیک صرف تمہارے ہی لیے ہے۔ اور تم اپنے اس اعتقاد میں سچے ہو تو (تمہیں دنیا کی جگہ آخرت کا طلب گار ہونا چاہیے۔ پس بے خوف ہو کر) موت کی آرزو کرو (حیات فانی کے پجاری نہ بنو)
(آیت 95،94) 1۔ اس آیت سے ملتا جلتا مضمون سورۂ جمعہ (۶ تا ۸) میں بیان ہوا ہے، یہاں ﴿وَ لَنْ يَّتَمَنَّوْهُ اَبَدًا﴾ اور وہاں ﴿وَ لَا يَتَمَنَّوْنَهٗۤ۠ اَبَدًا﴾ ہے۔ اس میں حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہاں دعویٰ اللہ کی دوستی کا ہے، جس کی نفی صرف ’’ لَا ‘‘ کے ساتھ کی گئی، یہاں دار آخرت کا یہودیوں کے لیے خاص ہونے کا ہے جو اس سے بڑا دعویٰ ہے، کیونکہ اللہ کی دوستی ذریعہ ہے اور جنت کا حصول نتیجہ ہے، اس لیے یہاں نفی حرف ’’ لَنْ ‘‘ کے ساتھ کی گئی، جو تاکید کے لیے ہے۔ (رازی) واللہ اعلم ! 2۔اس آیت کی دو تفسیریں کی گئی ہیں ، ایک یہ کہ اگر تم اس دعویٰ میں سچے ہو کہ جنت میں تمھارے سوا کوئی نہیں جائے گا تو موت کی تمنا کرو، کیونکہ جس شخص کو یقین ہو کہ وہ مرنے کے بعد جنت میں جائے گا وہ تو ضرور موت کی تمنا کرے گا، تاکہ جلد از جلد جنت میں پہنچ جائے۔ ابن جریر اور بعض دوسرے مفسرین نے یہی معنی کیے ہیں ، مگر اس پر یہ سوال باقی رہتا ہے کہ یہود ہی موت کی تمنا کیوں کریں ، مسلمانوں کو بھی موت کی تمنا کرنی چاہیے، جب کہ موت کی تمنا تو مسلمان بھی کم ہی کرتے ہیں ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہود نسلی تفاخر میں مبتلا تھے، وہ اللہ تعالیٰ کے بیٹے اور محبوب ہونے کے دعوے دار تھے اور جنت کے واحد ٹھیکے دار بنے ہوئے تھے، جب کہ مسلمانوں کا ایمان خوف اور امید کے درمیان ہے، وہ اتنے بے خوف ہوتے ہی نہیں کہ اتنا بڑا دعویٰ کریں ۔ [دیکھیے سورهٔ مؤمنون : ۵۷ تا ۶۱] اس کے باوجود مسلمانوں میں شہادت کا شوق اور میدان جنگ میں موت کو موت کی جگہوں سے تلاش کرنا عام تھا، جب کہ یہودی اتنے بلند و بالا دعوؤں کے باوجود آخرت سے سراسر ناامید تھے۔ [ دیکھیے سورۂ ممتحنۃ : ۱۳ ] اس لیے وہ کبھی مرنا نہیں چاہتے تھے اور بزدلی کی انتہا کو پہنچے ہوئے تھے۔ یہاں بھی فرمایا کہ وہ اپنے اعمال بد کی وجہ سے کبھی موت کی تمنا نہیں کریں گے۔ اس آیت میں یہود کے زبانی دعوے اور دل کی چوری کی حقیقت کھول کر بیان کی گئی ہے کہ وہ پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنے یقین سے پہچانتے تھے کہ آپ کے کہنے پر کبھی موت کی تمنا کرنے پر تیار نہ تھے۔ دوسری تفسیر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمائی ہے کہ ”فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ“ کا معنی ہے کہ دونوں گروہوں ( یہودیوں اور مسلمانوں ) میں سے جو جھوٹا ہے اس کے لیے موت کی بد دعا کرو تو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات کا انکار کر دیا۔‘‘ [ ابن أبی حاتم : ۱؍۲۴۷، ح : ۹۳۷، بسند حسن ] یعنی اس آیت میں یہود کو دعوت مباہلہ دی گئی کہ اگر تم اپنے آپ کو سچا سمجھتے ہو تو فریقین میں سے جو جھوٹا ہے اس کے لیے موت کی دعا کرو، مگر انھوں نے اس سے انکار کر دیا۔ سورۂ جمعہ (۶ تا ۸) میں بھی یہی مضمون بیان ہوا ہے، ان آیات میں بھی یہود کو مباہلہ کی دعوت دی گئی ہے، جیسا کہ سورۂ آل عمران (۶۱) میں نجران کے نصرانیوں کو مباہلہ کی دعوت دی گئی اور جس طرح نصرانی مباہلہ سے ڈر گئے تھے یہود بھی بددعا سے ڈر گئے اور جھوٹے گروہ کی موت کی تمنا نہ کی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا، اگر یہودی اس دن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے یہ بات کہی، موت کی تمنا کرتے تو زمین پر جو یہودی بھی تھا مر جاتا۔ [ ابن ابی حاتم :1؍247، ح : ۹۳۸، بسند حسن ] حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اسی معنی کو صحیح لکھا ہے، حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے بھی مدارج السالکین میں اس معنی کو ترجیح دی ہے اور ہمارے استاذ مولانا محمد عبدہ رحمہ اللہ کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔ اس تفسیر پر یہ اعتراض آتا ہی نہیں کہ یہود ہی موت کی تمنا کیوں کریں ، مسلمان کیوں نہ کریں ، نہ اس کے جواب کی زحمت اٹھانا پڑتی ہے، کیونکہ جھوٹے کی موت کی تمنا اور بددعا صرف یہود نے نہیں بلکہ مسلمانوں اور یہود دونوں نے کرنی ہے۔ جس کے لیے مسلمان تو آج بھی اللہ کے فضل سے تیار ہیں ، مگر یہود و نصاریٰ آج بھی اس کی جرأت نہیں کرتے اور نہ کبھی کر سکیں گے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔