سورة الاعراف - آیت 59

لَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

یہ واقعہ ہے کہ ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف (تبلیغ حق کے لیے) بھیجا تھا۔ اس نے کہا اے میری قوم ! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، میں ڈرتا ہوں کہ ایک بڑے ہی (ہولناک) دن کا عذاب تمہیں پیش نہ آجائے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ: اوپر بیان فرمایا ہے کہ ہدایتِ الٰہی اور اس کی برکات سے فائدہ اٹھانے یا نہ اٹھانے میں لوگوں کی دو قسمیں ہیں، ایک پاکیزہ فطرت (طیب) جو ہدایتِ الٰہی اور اس کی برکات سے خود بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کے علم و عمل سے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچتا ہے، دوسرے وہ جو شرارت پسند اور بد فطرت ہوتے ہیں، یہ لوگ ہدایت کی بارش سے فائدہ اٹھانے کے بجائے الٹے جھاڑیاں اور کانٹے بن کر نکل آتے ہیں اور ان کے دلوں کی زمین چونکہ شور ہوتی ہے، اس لیے ان پر رحمت کی بارش اتنی فائدہ بخش نہیں ہو سکتی۔ اس کے بعد اب یہاں سے تاریخی شواہد کے طور پر پہلی قوموں کے واقعات بیان کر کے گویا تاریخی ثبوت پیش کیا ہے کہ ہمیشہ سے لوگ دو قسم کے چلے آئے ہیں۔ (کبیر) نوح علیہ السلام چونکہ سب سے پہلے نبی مرسل تھے جو مشرک قوم کی طرف بھیجے گئے، جیسا کہ حدیث شفاعتِ کبریٰ (بخاری : ۴۷۱۲) اور بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے، اس لیے اﷲ تعالیٰ نے سب سے پہلے انھی کا قصہ بیان فرمایا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ (سورۂ نوح میں مذکور بت) ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر نیک لوگوں کے نام تھے، جب وہ فوت ہو گئے تو شیطان نے ان کے دلوں میں یہ بات ڈالی کہ ان کی مجالس میں، جن میں وہ بیٹھا کرتے تھے، ان کے مجسمے نصب کر دو اور ان کے نام پر ان کے نام رکھ دو، یہاں تک کہ جب وہ نسل فوت ہو گئی اور علم مٹ گیا تو ان کی عبادت شروع ہو گئی۔ [ بخاری، التفسیر، باب : ودا ولا سواعا ولا يغوث و يعوق : ۴۹۲۰ ] تاریخ کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم نوح عراق میں آباد تھی، ان کا زمانہ ۳۸۰۰ تا ۲۸۰۰ قبل مسیح ہے، مگر اس زمانے کی صحت کی کوئی دلیل نہیں۔