سورة الاعراف - آیت 58

وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ ۖ وَالَّذِي خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِدًا ۚ كَذَٰلِكَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَشْكُرُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (دیکھو) اچھی زمین اپنے پروردگار کے حکم سے اچھی پیداوار ہی نکالتی ہے لیکن جو زمین نکمی ہے اس سے کچھ پیدا نہیں ہوتا مگر یہ کہ نکمی چیز پیدا ہو، اس طرح ہم (حکمت و عبرت کی) نشانیاں ان لوگوں کے لیے دہراتے ہیں جو شکر کرنے والے ہیں (یعنی خدا کی نعمتوں کے قدر شناس ہیں)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ الْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهٗ....: یہی مثال مومن اور کافر و منافق کے دل کی ہے، جیسا کہ تابعین سے مروی ہے۔ (شوکانی) ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اﷲ تعالیٰ نے مجھے جو علم و ہدایت دے کر بھیجا ہے اس کی مثال رحمت کی اس بارش کی ہے جو ایک زمین پر برسی، اس کے جو حصے زرخیز تھے انھوں نے پانی کو جذب کر لیا اور خوب گھاس اور چارا اگایا، بعض حصے سخت تھے، انھوں نے پانی کو روک لیا تو اﷲ تعالیٰ نے اس کے ساتھ لوگوں کو نفع دیا، چنانچہ انھوں نے خود پیا اور پلایا اور کھیتوں کو سیراب کیا اور اس کا ایک حصہ ایک اور ٹکڑے پر برسا جو محض چٹیل میدان تھے، انھوں نے نہ پانی روکا اور نہ کوئی سبزہ اگایا، یہی مثال اس شخص کی ہے جس نے اﷲ کے دین کو سمجھ کر اس سے دوسروں کو فائدہ پہنچایا اور اس شخص کی جس نے نہ اس کے ساتھ سر ہی اٹھایا ( نہ خود سمجھا) اور نہ اﷲ کی وہ ہدایت قبول کی جو دے کر مجھے بھیجا گیا ہے۔‘‘ [ بخاری، العلم، باب فضل من علم و علّم : ۷۹ ] لِقَوْمٍ يَّشْكُرُوْنَ: اﷲ تعالیٰ نے پچھلی آیت میں بارش کے ساتھ زمین کو زندہ کرنے کی مثال مردوں کو زندہ کرنے کے لیے بیان فرمائی، اس سے مقصود نصیحت حاصل کرنا ہے، اس لیے وہاں ’’لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ ‘‘ فرمایا۔ اس آیت کا موضوع وحی الٰہی کا علم، اس پر عمل اور دعوت کا فائدہ اٹھانا ہے جس پر شکر لازم ٹھہرتا ہے، اس لیے یہاں ’’لِقَوْمٍ يَّشْكُرُوْنَ ‘‘ فرمایا۔