الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَهُمْ لَهْوًا وَلَعِبًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ۚ فَالْيَوْمَ نَنسَاهُمْ كَمَا نَسُوا لِقَاءَ يَوْمِهِمْ هَٰذَا وَمَا كَانُوا بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ
(کیونکہ وہ فرماتا ہے) جن لوگوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا لیا تھا (یعنی عمل حق کی جگہ ایسے کاموں میں لگے رہے جو کھیل تماشے کی طرح حقیقت سے خالی تھے) اور دنیا کی زندگی نے انہیں دھوکے میں ڈالے رکھا تو جس طرح انہوں نے اس دن کا آنا بھلا دیا تھا آج وہ بھی بھلا دیئے جائیں گے نیز اس لیے کہ وہ ہماری آیتوں سے جان بوجھ کر انکار کرتے تھے۔
1۔ فَالْيَوْمَ نَنْسٰىهُمْ....: آیت کے شروع میں کافروں کی علامات بیان کی گئی ہیں جنھوں نے اپنے دین کو دل لگی اور کھیل بنا لیا اور انھیں دنیوی زندگی کی فراوانی اور خوشحالی نے آخرت کے بارے میں دھوکے میں رکھا اور انھوں نے آخرت کو بھلا دیا اور اسی نسیان کے نتیجے میں انھیں نظر انداز کر دیا گیا۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ بندے سے ملے گا اور فرمائے گا : ’’اے فلاں ! کیا میں نے یہ نہیں کیا کہ تجھے عزت بخشی؟ تجھے سردار بنایا؟ تیری شادی کی؟ تیرے لیے گھوڑے اور اونٹ تابع کر دیے اور تجھے کھلا چھوڑ دیا کہ لوگوں کا سردار بنے اور ان کی آمدنی کا چوتھا حصہ ٹیکس لے؟‘‘ وہ کہے گا : ’’کیوں نہیں، اے میرے رب !‘‘ اﷲ تعالیٰ فرمائے گا : ’’تو تو نے یقین کیا کہ تو مجھ سے ملنے والا ہے ؟‘‘ وہ کہے گا : ’’نہیں!‘‘ اﷲ تعالیٰ فرمائے گا : ’’پھر میں بھی تجھے بھلا رہا ہوں جیسے تو نے مجھے بھلا دیا۔‘‘ [ مسلم، الزہد والرقائق، باب الدنیا سجن المؤمن وجنۃ الکافر : ۲۹۲۸، عن أبی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ] یہاں نسیان کا معنی چھوڑ دینا ہے، کیونکہ اﷲ تعالیٰ تو بھولتا ہی نہیں، فرمایا : ﴿لَا يَضِلُّ رَبِّيْ وَ لَا يَنْسَى﴾ [ طٰہٰ : ۵۲ ] ’’ میرا رب نہ بھٹکتا ہے اور نہ بھولتا ہے۔‘‘ یعنی اﷲ تعالیٰ انھیں جہنم میں ڈال کر ان کی کوئی خبر نہیں لیں گے۔ یہاں بھلانے کے بدلے کو بھلانا فرمایا ہے، یعنی خواہ کتنا ہی پکاریں ان پر رحم نہیں کیا جائے گا۔ 2۔ كَمَا نَسُوْا لِقَآءَ يَوْمِهِمْ هٰذَا: معلوم ہوا کہ دین کو لہو و لعب بنانے والے اور آیاتِ الٰہی کا انکار کرنے والے وہی ہوتے ہیں جو آخرت اور اﷲ تعالیٰ کی ملاقات کو بھول جاتے ہیں اور دنیا کی زندگی ہی کو سب کچھ سمجھ لیتے ہیں۔