وَنَادَىٰ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ أَصْحَابَ النَّارِ أَن قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَهَلْ وَجَدتُّم مَّا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا ۖ قَالُوا نَعَمْ ۚ فَأَذَّنَ مُؤَذِّنٌ بَيْنَهُمْ أَن لَّعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ
اور جنت والوں نے دوزخیوں کو پکارا ہمارے پروردگار نے جو کچھ ہم سے وعدہ کیا تھا ہم نے اسے سچا پایا ہے۔ پھر کیا تم نے بھی وہ تمام باتیں ٹھیک پائیں جن کا تمہارے پروردگار نے تم سے وعدہ کیا تھا؟ دوزخی جواب میں بولے ہاں اس پر ایک پکارنے والے نے پکار کر کہا ظالموں پر خدا کی لعنت ہو۔
وَ نَادٰۤى اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ ....: جنتی جہنمیوں کی حسرت و ندامت بڑھانے کے لیے اور اپنے دل کو ٹھنڈا کرنے اور انتقام لینے کے لیے ان سے یہ باتیں کہیں گے : ﴿فَالْيَوْمَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُوْنَ(34)عَلَى الْاَرَآىِٕكِ يَنْظُرُوْنَ(35)هَلْ ثُوِّبَ الْكُفَّارُ مَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ ﴾ [ المطففین : ۳۴ تا ۳۶ ] ’’سو آج وہ لوگ جو ایمان لائے، کافروں پر ہنس رہے ہیں، تختوں پر ( بیٹھے) نظارہ کر رہے ہیں، کیا کافروں کو اس کا بدلہ دیا گیا جو وہ کیا کرتے تھے ؟ ‘‘ بالکل یہی الفاظ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے مشرک مقتولین سے کہے تھے، چنانچہ انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے دن قریش کے چوبیس سرداروں کے متعلق حکم دیا، تو انھیں بدر کے ایک نہایت گندے کنویں میں پھینک دیا گیا۔ تیسرے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹنی پر سوار ہو کر اس کی طرف چلے، کنویں کے کنارے پر جا کھڑے ہوئے، آپ کے صحابہ بھی ساتھ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ایک ایک کا نام لے کر پکارنا شروع کیا: ’’اے فلاں بن فلاں ! اے فلاں بن فلاں! کیا تمھیں پسند ہے کہ تم نے اﷲ اور اس کے رسول کی بات مانی ہوتی؟ کیونکہ ہم نے تو جو ہمارے رب نے ہم سے وعدہ کیا سچا پا لیا، تو کیا تم نے بھی جو وعدہ تمھارے رب نے کیا تھا سچا پا لیا؟‘‘ تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’آپ ایسی لاشوں سے بات کر رہے ہیں جن میں جان ہی نہیں۔‘‘ فرمایا : ’’تم ان سے زیادہ وہ بات نہیں سن رہے جو میں انھیں کہہ رہا ہوں۔‘‘ قتادہ نے کہا کہ اﷲ نے انھیں زندگی دی، یہاں تک کہ انھیں آپ کی بات ڈانٹنے، ذلیل کرنے، انتقام اور حسرت و ندامت کے لیے سنوا دی۔ [بخاری، المغازی، باب قتل أبی جہل : ۳۹۷۶ ]