إِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّىٰ يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِينَ
جن لوگوں نے ہماری نشانیاں جھٹلائیں اور ان کے مقابلہ میں سرکشی کی تو (یاد رکھو) ان کے لیے آسمان کے دروازے کبھی کھلنے والے نہیں۔ ان کا جنت میں داخل ہونا ایسا ہے جیسے سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزر جانا، اسی طرح ہم مجرموں کو ان کے جرموں کا بدلہ دیتے ہیں (یعنی ہم نے اسی طرح قانون جزا ٹھہرا دیا ہے۔
1۔ اِنَّ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا....: یہ پچھلی آیت میں مذکور وعید ’’ پس چکھو عذاب ....‘‘ کی کچھ تفصیل ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ آسمانوں کے دروازے ہیں۔ بہت سی صحیح احادیث میں ان دروازوں کا ذکر موجود ہے۔ دروازے نہ کھولے جانے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے اعمال اور دعا کے اوپر جانے کے لیے دروازے نہیں کھلتے اور یہ بھی کہ مرنے کے بعد ان کی روحوں کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے، جیسا کہ مومن کی روح کے اوپر چڑھنے کے لیے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ایک لمبی حدیث کے ضمن میں ہے کہ مومن کی روح اوپر چڑھتی ہے تو اس کے لیے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور فرشتے مرحبا کہہ کر اس کا استقبال کرتے ہیں، حتیٰ کہ وہ ساتویں آسمان پر چلی جاتی ہے، مگر جب کافر کی روح آسمان تک پہنچتی ہے تو اس کے لیے دروازہ نہیں کھولا جاتا، پھر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی : ﴿ اِنَّ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا....:﴾ [مسند أحمد : ۴؍۲۸۸، ح : ۱۸۵۶۱ ] 2۔ حَتّٰى يَلِجَ الْجَمَلُ فِيْ سَمِّ الْخِيَاطِ: یہ ایک محاورہ ہے جو ایسے کام کے لیے بولا جاتا ہے جس کا ہونا ممکن ہی نہ ہو۔ نہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل ہو سکے اور نہ وہ جنت میں داخل ہوں۔