قُلْ أَمَرَ رَبِّي بِالْقِسْطِ ۖ وَأَقِيمُوا وُجُوهَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ۚ كَمَا بَدَأَكُمْ تَعُودُونَ
تم کہو میرے پروردگار نے جو کچھ حکم دیا ہے وہ تو یہ ہے کہ (ہر بات میں) اعتدال کی راہ اختیار کرو، اپنی تمام عبادتوں میں خدا کی طرف توجہ درست رکھو اور دین کو اس کے لیے خالص کر کے اسے پکارو۔ اس نے جس طرح تمہاری ہستی شروع کی اسی طرح لوٹائے جاؤ گے۔
(18) اللہ تعالیٰ بری باتوں کا حکم نہیں دیتا جیسا کہ مشر کین کہا کرتے تھے، اور جس کی تر دید گذشتہ آیت میں ہوچکی، وہ تو ایمان باللہ ایمان بالر سول اور عبادتوں میں توحید باری تعالیٰ کا حکم دیتا ہے، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کے نز دیک قسط سے مراد انبیاء کرام کی اتباع اور ان کی شریعتوں کی پابندی ہے، اور وہ اس بات کا حکم دیتا ہے، کہ آدمی جب بھی اور جہاں بھی نماز پڑھے اس کی رضا کے لیے پڑھے اور اس کا رخ قبلہ کی طرف ہو، اور عبادت اور دعا کی تمام صورتوں کو اللہ کے لیے خاص کرے، اس لیے کہ کوئی بھی عمل اللہ کے نزدیک جبھی قابل قبول ہوتا ہے، جب وہ شریعت نبوی کے مطابق ہو اور شرک سے پاک صاف ہو۔ (19) حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے کے کئی معانی بیان کئے ہیں، اورآخر میں ابن عباس (رض) کی تفسیر کو راجح قرار دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح ابتدا میں ابن آدم کو مؤمن و کافر پیدا کیا۔ جیسا کہ اللہ نے دوسری جگہ فرمایا ہے اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے پس تم میں سے کوئی کافر ہے اور کوئی مؤمن (التغابن :2) اسی طرح قیامت کے دن انہیں مؤمن و کافر اٹھائے گا، اس کے بعد اس تفسیر کی تائید میں کئی احادیث سے استدلال کیا ہے جن کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آدمی کو شروع سے ہی جنتی یا جہنمی پیدا کرتا ہے۔ اور جیسا اس کی تقدیر میں لکھا ہوتا ہے، اسی پر اس کا خاتمہ ہوتا ہے، اور اسی کے مطا بق وہ مسلم یا کافر کی حیثیت سے دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ لیکن چونکہ صحیحین وغیرہ میں حدیثیں آئی ہیں، کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، بعد میں اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ اس لیے دونوں قسموں کی آیات و احادیث کے درمیان تطبیق یوں دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو پیدا ہی اس طرح کیا ہے کہ اس کی فطرت میں یہ بات رچی بسی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، لیکن اس کے ساتھ اس نے یہ بھی مقدر کیا ہے کہ ان میں سے کوئی شقی اور کوئی سعید اور کوئی کافر اور کوئی مؤمن ہوگا.